رسائی کے لنکس

بھارت: حکومت کا ایک کروڑ گھروں کی چھتوں پر سولر پینل لگانے کا منصوبہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت میں مودی حکومت نے پارلیمانی انتخابات سے قبل ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔ اب مرکزی کابینہ نے دو اہم منصوبوں کو منظوری دی ہے جس کے تحت حکومت ایک کروڑ گھروں کی چھتوں پر سولر پینل لگائے گی اور ملک میں چِپ تیار کرنے کے لیے سیمی کنڈکٹرز بنانے کے تین کارخانے بھی لگائے جائیں گے۔

مبصرین انتخابات سے قبل اس کو بہت بڑا اعلان قرار دے رہے ہیں۔ کیوں کہ سولر پینلز لگانے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے سے جہاں توانائی کی بچت ہوگی وہیں گیسوں کے اخراج کو بھی کم کیا جا سکے گا۔

اندرونِ ملک سیمی کنڈکٹر بنانے کے منصوبے سے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے بقول بھارت اس میدان میں ایک عالمی مرکز کی حیثیت سے ابھرے گا۔ اس کے ساتھ ہی ٹیکنالوجی کے میدان میں دوسروں پر اس کا انحصار ختم ہو جائے گا۔

وزیرِ اعظم مودی نے 22 جنوری کو ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح سے نئی دہلی واپسی پر اسی شام کو ’پردھان منتری مفت بجلی یوجنا‘ کے تحت سولر پینل توانائی کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کی سمت میں قدم اٹھانے کا اعلان کیا تھا جسے تجزیہ کاروں نے پارلیمانی انتخابات کے تناظر میں ایک بڑا اعلان بتایا تھا۔

سولر پینل منصوبہ 750 ارب روپے کا ہے۔ اس کے تحت حکومت کسی بھی شخص کو اپنی چھت پر دو کلو واٹ تک کا پینل لگانے پر آنے والے خرچ کا 60 فی صد ادا کرے گی اور مزید ایک کلو واٹ کا پینل لگانے پر 40 فی صد کا تعاون دے گی۔

بیان کے مطابق اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت موجودہ شرح سے ایک کلو واٹ پر 30 ہزار، دو کلو واٹ پر 60 اور تین کلو واٹ پر 78 ہزار روپے کی سبسڈی دے گی۔ اس کے لیے نیشنل پورٹل پر درخواست دی جا سکے گی۔

اطلاعات و ٹیکنالوجی کے وزیر انوراگ ٹھاکر کے اعلان کے مطابق حکومت صارفین کو 300 کلو واٹ ماہانہ مفت بجلی فراہم کرے گی۔ حکومت اس منصوبے کے لیے صارفین کو قرض کی سہولت بھی فراہم کرے گی۔

انھوں نے مزید بتایا کہ حکومت نے چھتوں پر سولر پینل لگانے کے لیے تمام اضلاع میں مثالی مواضعات بنانے کی بھی منظوری دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی رہائشی سیکٹر میں سولر پینل کی صلاحیت میں 30 گیگاواٹ کا اضافہ ہو جائے گا۔

بعض مبصرین کے مطابق اس منصوبے سے ان صارفین کو بڑا فائدہ ہوگا جو 300 یونٹ ماہانہ سے کم خرچ کرتے ہیں۔ یعنی شہری علاقوں میں نچلے اور متوسط طبقات اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

توانائی کے امور کے ماہر اور سینئر تجزیہ کار راجیو رنجن سری واستو کے مطابق حکومت ایک کروڑ گھروں میں سولر پینل لگائے گی۔ ایک کروڑ گھر کم نہیں ہوتے۔

ان کے مطابق بھارت کوئلہ درآمد کرتا ہے اور اس کے استعمال سے بجلی تیار کرتا ہے۔ بھارت میں کوئلے کا ذخیرہ دن بہ دن کم ہوتا جا رہا ہے۔ لہٰذا اس منصوبے سے کوئلے اور بجلی دونوں کی کھپت کم ہوگی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ حکومت شمسی توانائی کے استعمال میں اضافے کے سلسلے میں مسلسل کوشش کر رہی ہے۔ بجٹ میں بھی اس بارے میں سبسڈی کی تجویز پیش کی جاتی رہی ہے۔

ان کے مطابق حکومت گزشتہ 15 برس سے اس سلسلے میں عوام میں بیداری لانے کے لیے کوشاں ہے۔ امید ہے کہ حکومت کے اس اعلان سے عوام میں بیداری آئے گی اور وہ بجلی کے استعمال کو کم کرنے پر غور کریں گے۔ تاہم ان کے خیال میں اس شعبے میں جتنا کام ہونا چاہیے تھا ابھی نہیں ہو سکا ہے۔

انھوں نے کہا کہ شمسی توانائی کو گرین انرجی میں شمار کیا جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ میں گیسوں کے اخراج کو روکنے پر مسلسل غور خوض ہوتا رہا ہے۔ بھارت پر بھی گیسوں کے اخراج کو کم کرنے پر زور دیا جاتا رہا ہے۔ اس سے گیس اخراج کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

ان کے بقول جھارکھنڈ اور چھتیس گڑھ وغیرہ ریاستوں کے دیہی علاقوں میں اسٹریٹ لائٹس کے لیے سولر انرجی کا استعمال ہوتا ہے۔ البتہ گھروں کی چھتوں پر اس کا استعمال کم ہے۔

ادھر الیکٹرانک اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مرکزی وزیر اشونی ویشنو کے اعلان کے مطابق سیمی کنڈکٹر بنانے کے لیے دو یونٹ گجرات میں اور ایک آسام میں لگایا جائے گا اور یہ یونٹ اگلے 100 دنوں میں کام کرنا شروع کر دیں گے۔

ان کے مطابق یہ منصوبہ 1.26 لاکھ کروڑ روپے کا ہے۔ اس میں 26 ہزار افراد کو براہِ راست ملازمت دی جائے گی جب کہ ایک لاکھ افراد کو بالواسطہ کام ملے گا۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال جون میں وزیرِ اعظم نریندر مودی کے امریکہ کے دورے میں دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی شعبے میں ہونے والے معاہدوں میں ایک معاہدہ سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ کا بھی تھا جس کے تحت اعلان کیا گیا تھا کہ 2.75 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے بھارت میں سیمی کنڈکٹر اسمبل کرنے اور ٹیسٹ کرنے کے لیے تنصیبات لگائی جائیں گی۔

اشونی ویشنو کے مطابق پہلی کمرشل سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ تنصیب گجرات کے دھولیرا میں ٹاٹا اور پاور چِپ تائیوان کے اشتراک سے لگائی جائے گی۔ اس پر 50 ہزار کروڑ روپے کا خرچ ہوں گے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ان تین یونٹوں کی مدد سے بے روزگاری کے مسئلے کو بھی کسی حد تک حل کیا جا سکے گا اور چِپ خریدنے کے سلسلے میں دوسرے ملکوں پر بھارت کا انحصار کم ہوگا۔ نوئیڈا کی ایک آئی ٹی کمپنی ’آئی ٹی بیٹر کامرس‘ میں سولوشن آرکیٹکٹ مسعود احمد کا کہنا ہے کہ اندرونِ ملک چِپ تیار کرنے سے عالمی سپلائی چین سے متعلق خطرات بھی کم ہوں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس سے قومی سلامتی کو استحکام حاصل ہوگا اور دفاعی اور اسٹریٹجک شعبوں میں بیرونی خطرات سے نمٹنے میں آسانی ہوگی۔

ان کے بقول بھارت میں سیمی کنڈکٹر کی مینوفیکچرنگ سے بیرونی سرمایہ کاری بڑھے گی اور اس سے تجارت کے لیے سازگار ماحول بنانے کے حکومت کے عزم کو تقویت حاصل ہوگی۔

لیکن تجزیہ کار اسے پارلیمانی انتخابات کے تناظر میں بھی دیکھتے ہیں۔ سینئر تجزیہ کار وویک شکلا کے مطابق سیاسی جماعتیں انتخابات سے قبل اپنے منشور میں ایسے وعدے کرتی ہیں۔ جب کہ حکمراں جماعت بھی بڑے منصوبوں کا اعلان کرتی ہے۔ لیکن سوال ان اعلانات کے نفاذ کا ہوتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ مودی حکومت تیسری بار اقتدار میں آنے کے لیے کوشاں ہے۔ بی جے پی مذہبی جذبات کے ایشوز کو بھی اٹھاتی ہے اور ترقیاتی ایشوز کو بھی۔ وہ اس سے ایک طرف مذہبی لوگوں کو اپنی جانب راغب کرتی ہے اور دوسری جانب ان لوگوں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتی ہے جو ترقی میں یقین رکھتے ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک طرف وزیرِ اعظم نریندر مودی اپنے ان اعلانات کو عوامی بہبود کے اعلان قرار دیتے ہیں جب کہ دوسری جماعتوں کے اعلانات کو ’ریوڑی کلچر‘ بتاتے ہیں جب کہ وہ خود اس کلچر کو فروغ دے رہے ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت ایک طرف کہتی ہے کہ بھارت 2027 تک دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن جائے گا اور دوسری طرف وہ ملک کے 80 کروڑ افراد کو ماہانہ پانچ کلو اناج مفت دیتی ہے۔ 140 کروڑ کی آبادی میں 80 کروڑ کی آبادی کم نہیں ہوتی۔ حکومت اتنے لوگوں کو مفت اناج دے کر ان کو مفت خور بنا رہی ہے۔

یاد رہے کہ دہلی کی کیجری وال حکومت صارفین کو 200 یونٹ تک بجلی مفت دے رہی ہے۔ دہلی کی سرکاری بسوں میں خواتین کو مفت سفر کی سہولت حاصل ہے۔ ان کی حکومت اب پانی بھی مفت دینے کی کوشش کر رہی ہے۔

وویک شکلا کے مطابق ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس واحد ایسی بڑی پارٹی ہے جس نے عوام کے لیے مفت دینے کا اعلان کم کیا ہے۔ اس معاملے میں بی جے پی اور عام آدمی پارٹی پیش پیش ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG