رسائی کے لنکس

'مٹھائی کی دکان کے باہر لوگ کہہ رہے تھے، ایوب خان آ گیا'


ایوب خان نے اکتوبر 1958 کو پاکستان میں پہلا مارشل لا لگایا تھا۔
ایوب خان نے اکتوبر 1958 کو پاکستان میں پہلا مارشل لا لگایا تھا۔

ایک چھوٹا سا لڑکا گلی کی نکڑ پر کھڑا لوگوں کو تیزی سے اِدھر اُدھر جاتے دیکھ رہا تھا۔ لگتا تھا کچھ انوکھا واقعہ ہو گیا ہے۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کیا ہوا ہے۔ کچھ لوگ کہہ رہے تھے ایوب خان آ گیا، مارشل لا لگ گیا۔ ایسے میں اچانک کچھ بچے پیچھے سے آئے اور آوازیں دیں آ جاؤ، آ جاؤ۔ وہ بازار کی طرف جا رہے تھے۔ وہ بھی بغیر سوچے سمجھے چل دیا۔

سب بچے مٹھائی کی ایک دکان کے سامنے جا کر رک گئے۔ وہاں بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ لوگ ڈھیروں مٹھائی خرید رہے تھے اور خوش تھے کہ یہ بہت سستی مل رہی تھی۔ کچھ بچوں کے پاس پیسے تھے جنہوں نے دکان دار کو دیے۔ اس نے بغیر دیکھے بہت سی مٹھائی ان کو دے دی۔ پھر ان بچوں کو جن کے پاس پیسے نہیں تھے اور وہ حسرت سے دیکھ رہے تھے۔ دکان دار نے ان کو بھی لفافے میں کچھ جلیبیاں، کچھ برفی ڈال دی مفت میں۔ اور ہم سب خوشی خوشی یہ لے کر گھر آ گئے۔

گھر والے بھی خوش تھے۔ باتیں ہو رہی تھیں۔ پھر والد صاحب باہر سے آئے تو ان کے پاس بہت سی خبریں تھیں۔ پھر چچا آئے تو انہوں نے بتایا کہ نالہ لئی میں بہت سی ملاوٹ زدہ مرچیں اور مصالے بہا دیے گئے۔ اور لوگوں نے چھاپے کے خوف سے اپنے گودام راتوں رات خالی کر دیے۔ ہم بچوں کی سمجھ میں یہ باتیں نہیں آ رہی تھیں، لیکن منظر کچھ بدلا بدلا ضرور تھا۔

کہیں سے کوئی فوجی گزرتا، چاہے اس کا عہدہ کوئی بھی ہو، لوگ خوشی سے تالیاں بجاتے۔ اس سے ہاتھ ملاتے۔ کہیں کہیں انہیں ہار پھول پہنائے جاتے۔ اسکولوں میں اساتذہ قصے سناتے کہ کس طرح فوجی عدالتوں میں جلد مقدمے سنے جاتے ہیں اور سزائیں دی جاتی ہیں اور پھر ایوب خان کے آنے کو بڑی خوشی اور کامیابی قرار دیتے ہوئے پچھلی حکومتوں کی بدعنوانیاں، سلیبس میں پڑھائی جاتیں اور کہا جاتا کہ اب ہر طرف انصاف اور خوشحالی ہو گی۔ ہر قسم کی برائیاں اور بے ایمانی ختم ہو جائے گی۔

لیکن آہستہ آہستہ یہ جوش و خروش مدھم پڑ گیا۔ ڈر خوف کم ہونا شروع ہو گیا۔ حالات معمول پر آتے گئے اور پھر وہی چال بے ڈھنگی۔

مگر یہ ضرور ہوا کہ روز بروز بدلتی حکومتوں کی دوڑ ختم ہوئی۔ ایک مستحکم نظام کی صورت نظر آئی اور ترقی کا پہیہ چلنا شروع ہوا۔

فیکٹریاں اور ملیں پیداوار دینے لگیں۔ ملکی برآمدات میں اضافہ ہوا۔ سڑکیں، پُل اور ڈیم تعمیر ہونا شروع ہوئے اور سب سے بڑھ کر نئے دارالحکومت اسلام آباد کی تعمیر کا آغاز ہوا۔

اس دوران ہم بھی اسکول سے ہوتے ہوئے ریڈیو پاکستان راولپنڈی کے بچوں کے پروگرام پہنچ گئے۔ جہاں اکثر ہماری ایک ٹیم کو پروڈیوسر صاحب، مختلف ترقیاتی منصوبوں کی سیر کے لیے لے جاتے۔ سوال و جواب ہوتے اور پھر پروگرام میں اس کو پیش کیا جاتا۔ ایسی ہی ایک یادگار سیر ہمیں اسلام آباد کی کرائی گئی جو اس وقت زیرِ تعمیر تھا۔ ہمیں شکر پڑیاں کی پہاڑی سے دکھایا گیا کہ پارلیمنٹ ہاؤس، پریزیڈنٹ ہاؤس، سیکرٹریٹ، اور بڑی بڑی عمارتیں کہاں بنیں گی۔ اس وقت وہاں صرف مٹی کے ڈھیر اور دور دور تک پہاڑی ٹیلے اور میدان دکھائی دیتے تھے۔ تصور بھی نہیں تھا کہ یہ جگہ کیا سے کیا ہو جائے گی۔

اسکول کے تقریری مقابلوں میں حصہ لینا شروع کیا تو مغربی پاکستان کے مختلف شہروں میں جانے اور انعامات جیتنے کا موقع ملا اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کہ راولپنڈی کے اسٹیڈیم میں ایک بڑی چلڈرن ریلی منعقد ہوئی جس کی صدارت ایوب خان فرما رہے تھے۔ ہماری خوش قسمتی کہ ہمیں بھی تقریری مقابلوں میں انعام کا مستحق قرار دیا گیا اور یہ صدر نے ہی دینا تھا۔

عجیب لمحہ تھا جس ایوب خان کی دہشت مارشل لا لگنے کے بعد بچپن سے دماغ میں گھر کر گئی تھی، اسی ایوب خان سے یہ انعام لینا تھا۔ وہ کئی سیڑھیاں اوپر ایک بڑے سے چبوترے پر سفید بش سوٹ اور کالی جناح کیپ پہنے انعامات اور اسناد تقسیم کر رہے تھے۔ انعام وصول کرنے والے زیادہ تر کھلاڑی، اتھلیٹس اور جمناسٹ تھے جو بھاگتے ہوئے سیڑھیاں چڑھتے، زور دار سیلیوٹ مارتے اور انعام وصول کرتے۔ ہمارا نام پکارا گیا تو عجیب کیفیت تھی۔

سیڑھیوں پر تیز چڑھنے کی کوشش کی تو سانس پھول گیا۔ قوی الجثہ ایوب خان کے سامنے پہنچے تو سیلیوٹ مارنے کی کوشش کی، مگر ان کا رعب و دبدبہ ایسا تھا کہ ہاتھ پورا نہ اٹھ سکا۔ صدر صاحب اس کیفیت کو بھانپ گئے اور شاباش بچہ شاباش کہتے ہوئے خود ہی آگے بڑھے اور ایک بڑا سا کپ ہمیں تھما دیا۔

وقت تیزی سے اور نسبتاً پُرسکون ہی گزر رہا تھا کہ 1965 کا ہنگامہ خیز سال آ گیا۔ صدارتی انتخابات 1965 کے آغاز میں ہوئے اور ستمبر میں بھارت کے ساتھ جنگ چھڑ گئی۔

خیال یہ تھا کہ انتخاب میں ایوب خان بلا مقابلہ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہو جائیں گے۔ لیکن دو غیر معروف امیدواروں نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی داخل کروائے جو محض ایک مصنوعی کارروائی تھی۔

لیکن پھر ایک بڑا سرپرائز ہوا کہ محترمہ فاطمہ جناح نے بھی انتخاب لڑنے کا اعلان کر دیا۔ قائد اعظم کی بہن ہونے کے ناطے لوگ انہیں مادرِ ملت سمجھتے تھے اور ان کا بڑا احترام تھا۔ ان کے ملک بھر میں کامیاب جلسے ہوئے اور عوام میں اُنہیں بھرپور پذیرائی ملی۔ لیکن اس تمام تر مقبولیت کے باوجود وہ ایک طاقت ور حکمران اور حکومت کے سامنے جیت نہ سکیں اور ایوب خان دوسری بار صدر منتخب ہو گئے۔

کچھ ہی عرصے کے بعد بھارت کے ساتھ جنگ چھڑ گئی۔ یہ بھی ایک نیا تجربہ تھا۔ ریڈیو کے بچوں کے پروگرام میں شرکت کے لیے بس میں سوار اسٹیشن کی طرف جا رہے تھے کہ اچانک ڈرائیور نے ریڈیو کی آواز اونچی کر دی۔ سب لوگ خاموش ہو گئے۔ صدر ایوب اپنی گرج دار آواز میں بول رہے تھے۔ "پاکستان کے 10 کروڑ عوام جن کے دلوں میں کلمے کی صدا گونج رہی ہے، اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک کہ دشمن کی توپیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش نہ ہو جائیں۔ ہندوستانی حکمران ابھی نہیں جانتے کہ انہوں نے کس قوم کو للکارا ہے"۔

مختصر سی لیکن بڑے جذبے والی، دبنگ تقریر ختم ہوئی تو بس میں موجود تمام لوگوں نے خوشی سے تالیاں بجائیں۔ اچانک سماں بدل گیا۔ ریڈیو اسٹیشن پہنچے تو لوگ بجائے خوف کے بڑے پُرجوش نظر آئے۔ فوراً میٹنگ شروع ہو گئی۔ ہر سطح پر نئے پروگراموں، موسیقی اور ترانوں کی منصوبہ بندی ہونے لگی۔ شاعر، ادیب، موسیقار، گلوکار سب ایک نئی ترنگ میں آ گئے۔

ادھر ملکۂ ترنم نورجہاں، مہدی حسن، مسعود رانا، شوکت علی، نسیم بیگم وغیرہ کے جنگی ترانے لوگوں کے دلوں کو گرما رہے تھے۔

کراچی سے مہدی حسن، 'خطئہ لاہور تیرے جانثاروں کو سلام' پیش کر رہے تھے تو لاہور سے ملکۂ ترنم وطن کے 'سجیلے نوجوانوں' کو خراج پیش کر رہی تھیں۔ ساری قوم متحرک اور پر جوش ہو چکی تھی اور سارے نوجوان، بلکہ بوڑھے اور خواتین بھی فوجی رضاکار بنے گھوم رہے تھے کہ نہ جانے کب ضرورت پڑ جائے۔

لاہور میں لوگ لاٹھیاں لیے واہگہ بارڈر کی طرف روانہ ہو گئے تاکہ اپنے فوجیوں کی مدد کر سکیں۔ عورتیں بچے اور جوان سڑکوں پر نکل آئے۔ وہ دیوانہ وار سرحد کی طرف بھاگ رہے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں پانی، کھانا، اور دوسری ضرورت کی اشیا تھیں جو وہ اپنے فوجی بھائیوں کو دینا چاہتے تھے۔ جب بھی پاک ٖفضائیہ کا کوئی جہاز نظر آتا لوگ چھتوں پر چڑھ جاتے۔ خوشی سے نعرے لگاتے اور ہاتھ میں پکڑے کپڑوں کو جھنڈے کی طرح لہراتے۔

غرض اس جنگ نے پوری قوم کو پرجوش کر دیا۔ دونوں ملک اپنی اپنی کامیابیوں کے دعوے کرتے رہے۔ بےشمار کہانیاں گردش کرتی رہیں۔ ہر شخص اپنے اپنے تجربات بڑھا چڑھا کر بیان کرتا تھا۔ برّی، بحری اور فضائی افواج کی بہادری کے قصے زبان زدِ عام تھے۔

ایک خبر یہ بھی بہت مشہور ہوئی کہ پاکستان ایئر فورس کے فائٹر پائلٹ ایم ایم عالم نے سات ستمبر 1965 کو اپنے ایف۔86 سیبر سے پانچ بھارتی ہنٹر طیاروں کو ایک منٹ سے بھی کم عرصے میں زمیں بوس کر دیا اور ریکارڈ قائم کیا۔

جنگ بڑے جوش و خروش سے جاری تھی کہ 17 روز بعد اقوامِ متحدہ کی کوششوں کے بعد جنگ بندی کا اعلان ہو گیا۔ پھر تاشقند میں صدر ایوب اور بھارتی وزیرِ اعظم لال بہادر شاستری کے درمیان روس کی سہولت کاری میں ایک امن معاہدہ طے پایا۔

جنگ تو رک گئی لیکن اس معاہدے پر اعتراضات سامنے آنے لگے۔ یہ کہا جانے لگا کہ میدان میں جیتی جنگ ایوب خان نے میز پر ہار دی۔ تصاویر میں ایوب خان کے پیچھے کھڑے اس وقت کے وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو بظاہر افسردہ چہرے نے بھی بہت سی کہانیوں کو جنم دیا۔ اور بعد میں آنے والے حالات نے بھی صدر اور وزیرِ خارجہ کے درمیان کشیدگی کو اُجاگر کیا۔

غرض اس جنگ کے بڑے گہرے اثرات ہوئے۔ تیزی سے ترقی کرتی معیشت تنزلی کا شکار ہو گئی۔ مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان خلیج اور گہری ہوتی گئی۔ جہاں مجیب الرحمان ایک لیڈر بن کر ابھر رہے تھے۔

ادھر مغربی پاکستان میں بھٹو ابھر کر سامنے آ رہے تھے۔ عوام میں ان کی پذیرائی بڑھتی جا رہی تھی۔ لوگ ان کے ہر اقدام میں دلچسپی لینے لگے تھے۔ ایوب خان سے ان کے تعلقات خراب ہو تے نظر آ رہے تھے اور آخر کار انہیں کابینہ سے سبک دوش کر دیا گیا۔

سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو (فائل فوٹو)
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو (فائل فوٹو)

حکومت سے سبکدوشی کے چند مہینوں کے بعد 1968 میں وہ راولپنڈی کے پرل کانٹی ننینٹل ہوٹل میں ٹھیرے ہوئے تھے کہ اسی روز پنڈی کے مضافات میں پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ کے طلبہ سڑکوں پر مظاہرہ کر رہے تھے۔ اس دوران پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لئے مبینہ طور پر گولی چلا دی جس سے ایک لڑکا ہلاک ہو گیا۔ اس واقعے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ طلبہ جلوس کی صورت میں اس ہوٹل کے سامنے پہنچے جہاں بھٹو قیام پذیر تھے۔ کچھ اسٹوڈنٹ لیڈر ان کے پاس گئے اور ساری صورتِ حال بتائی تو بھٹو باہر آ گئے اور مشتعل طلبہ سے خطاب کیا۔

حالات دن بدن بگڑ رہے تھے کہ ایسے میں ایوب خان نے عشرہ ترقی منانے کا اعلان کر دیا۔ لوگ پہلے ہی حالات کے ہاتھوں تنگ تھے۔ اس اقدام نے انہیں برہم کر دیا اور وہ سراپا احتجاج بن گئے۔

یہ ابتدا تھی ایک حکومت مخالف تحریک کی اور ایوب خان کا زوال شروع ہو چکا تھا۔ ایک عشرے تک پوری آب وتاب سے چمکنے کے بعد ان کا سورج غروب ہو رہا تھا۔

(خالد حمید کا نام پاکستان میں پی ٹی وی خبرنامے کے حوالے سے کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اوپر دی گئی تحریر ان کے خصوصی بلاگ کا وہ سلسلہ ہے، جس کے تحت وہ وائس آف امریکہ اردو کے لئے اپنی یادداشتیں تحریر کر رہے ہیں)

XS
SM
MD
LG