رسائی کے لنکس

جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات، ایم جے اکبر مستعفی


فائل
فائل

سوشل میڈیا پر جاری Me Too مہم کے تحت متعدد خاتون صحافیوں کی جانب سے جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات کے بعد وزیر مملکت برائے خارجہ ایم جے اکبر نے اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا۔ تاہم، انھوں نے اس کا اعادہ کیا کہ ان پر عاید الزامات غلط اور بے بنیاد ہیں۔

انھوں نے اس سلسلے میں ایک بیان جاری کرکے کہا کہ چونکہ میں نے ذاتی حیثیت میں عدالت سے انصاف حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس لیے مناسب ہوگا کہ میں اپنے عہدے سے علیحدہ ہو جاؤں۔

اس سے قبل جبکہ وہ غیر ملکی دورے پر تھے متعدد خاتون صحافیوں کی جانب سے الزام عاید کیا گیا تھا کہ جب وہ اخبار کے ایڈیٹر تھے، انھوں نے انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا تھا۔ دورے سے واپسی پر اکبر نے ایک بیان جاری کرکے الزامات کو بے بنیاد بتایا تھا اور اگلے ہی روز ایک خاتون صحافی پریا رمانی کے خلاف دہلی کی ایک عدالت میں مجرمانہ ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا۔ ان کی جانب سے 97وکلا کی فہرست پیش کی گئی ہے۔

اس کارروائی کے بعد ان پر الزا عائد کرنے والی خاتون صحافیوں کی تعداد بڑھ کر 20 ہو گئی۔ انھوں نے ایک مشترکہ بیان جاری کرکے رمانی کی حمایت کی اور کہا کہ وہ چاہیں گی کہ عدالت میں ان کا بھی موقف سنا جائے۔

اکبر نے اپنے خلاف الزامات کے وقت پر سوال اٹھایا تھا اور اس میں کسی سیاسی ایجنڈے کا شبہ ظاہر کیا۔ ان کے اس بیان کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔

خاتون صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں اور عورتوں کی متعدد تنظیموں نے اکبر کے خلاف ایک طرح سے محاذ کھول دیا اور حکومت پر الزام عاید کیا کہ ’بیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ‘ کا نعرہ لگانے والی مودی حکومت عورتوں کے حقوق کے سلسلے میں سنجیدہ نہیں ہے۔

بی جے پی کے ترجمان اس بارے میں کوئی رائے ظاہر کرنے سے قاصر رہے۔ حکومت بھی اس معاملے میں گھرتی چلی جا رہی تھی۔ بالآخر بی جے پی صدر امت شاہ، قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال اور دیگر افراد سے ملنے کے بعد اکبر نے استعفیٰ دے دیا۔

ایک سینئر صحافی اور سیاسی حلقوں میں گہری رسائی رکھنے والے رشید قدوائی نے کہا کہ یہ فیصلہ بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ میں الزام عاید کرنے والی خاتون صحافیوں کو جانتا ہوں اور ان میں سے بہتوں کے ساتھ میں نے کام بھی کیا ہے اس لیے ان کے الزامات درست معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن اس بارے میں عدالت میں الزام ثابت کرنا ہوگا۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت نے جو رویہ اختیار کیا اور جس طرح اس کی جانب سے خاتون صحافیوں کو دھمکی دی جانے لگی اس کی وجہ سے
Me Too مہم میں زیادہ جوش آیا اور دیگر بہت سی خواتین کھل کر سامنے آ گئیں۔

اس دوران بی جے پی رہنماؤں نے اکبر سے خود کو الگ تھلگ کر لیا تھا۔ امت شاہ نے الزامات کی جانچ کی بات کی اور مرکزی وزیر مینکا گاندھی نے جانچ کے لیے ایک کمیٹی کا اعلان کیا۔

ایم جے اکبر کی جانب سے دائر معاملے پر جمعرات کو سماعت ہوگی۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG