رسائی کے لنکس

اب اور آنسو نہیں ۔۔۔۔۔


سومی علی (فائل فوٹو)
سومی علی (فائل فوٹو)

امریکہ میں قائم عورتوں کی ایک تنظیم 'No more tears'یعنی 'اب اور آنسو نہیں' تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین اور بچوں کے آنسو پونچھنے اور انہیں زندگی کی خوشیاں لوٹانے کے لیے کام کر رہی ہے۔

یاسمین حمیل

دنیا کا شاید ہی کوئی حصہ ایسا ہوگا جہاں کسی نہ کسی حوالے سے خواتین تشدد کا نشانہ بہ بنتی ہوں۔ عورتوں اور لڑکیوں کے خلاف زیادتیوں کے بارے آگاہی پھیلانے اور تشدد کرنے والا ہاتھ روکنے کے لیے ان دنوں اقوام متحدہ کی16 روزہ مہم جاری ہے، جس کا عنوان ہے ۔UNiTE" against Gender-Based Violence ۔

امریکہ میں قائم عورتوں کی ایک تنظیم 'No more tears'یعنی 'اب اور آنسو نہیں' تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین اور بچوں کے آنسو پونچھنے اور انہیں زندگی کی خوشیاں لوٹانے کے لیے کام کر رہی ہے۔اس تنظیم کی بانی اور سربراہ سومی علی ہیں۔

سومی علی ایک سوشل ورکر ہی نہیں ہیں ، وہ ایک اداکارہ، ڈاکو میٹری فلم میکر، براڈکاسٹ جرنلسٹ، اور پاکستانی امریکی فیشن ڈیزائنر بھی ہیں۔

وائس آف امریکہ کے پروگرام زندگی رواں دواں میں اپنے انٹرویو میں سومی علی نے اپنی تنظیم کی انفرادیت کے بارے میں بتایا کہ ان کے ادارے 'No more tears'کا کوئی دفتر نہیں ہے، کوئی بلڈنگ یا شیلٹر ہوم نہیں ہے، کوئی باقاعدہ عملہ نہیں ہے، کوئی باقاعدہ ڈونر نہیں ہے ، مگر پھر بھی وہ اب تک تنظیم تین ہزار سے زیادہ عورتوں اور بچوں کی مدد کر چکا ہے۔اور انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کر کے اپنا گھر بار خود چلانے کے قابل بنا چکا ہے ۔ انہیں اپنے اس کام پر کئی ایوارڈ مل چکے ہیں۔

امریکی ریاست فلوریڈا میں آباد سو می علی گزشتہ دس سال سے دنیا بھر کے ملکوں سے امریکہ آنے والی ان خواتین کی مالی، قانونی اور نفسیاتی ،مددکا بندو بست کر رہی ہیں جو اپنےشوہروں، اپنے اہل خانہ ، اپنےارد گرد یاسوشل میڈیا پر ملنے والے فریبی اجنبیوں کےہاتھوں مختلف قسم کے تشدد کا نشانہ بن رہی ہیں، اور امریکہ کے قانونی اور معاشرتی نظام سے نا واقفیت ، انگریزی زبان میں گفتگو کی صلاحیت نہ رکھنے ، اپنا مالی بوجھ خودنہ اٹھا سکنے ، اور اپنی ثقافتی اقدار کی وجہ سے خاموش رہنے اور اس تشدد کو برداشت کرنے پر مجبور ہوتی ہیں ۔

سومی علی نے، جو امریکہ آنے سے قبل بالی وڈ کی دس فلموںمیں کامیاب اداکاری کر چکی تھیں، خود بھی ان خواتین کی طرح کئی قسم کی زیادتیوں کا شکار ہوئی تھیں۔ انہوں نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ خواتین کی مدد کے لیے یہ تنظیم انہوں نے اپنی تین لاکھ ڈالر کی بچتوں سےقائم کی۔

بالی ووڈ کی سابقہ اداکارہ کا کہنا تھا کہ انہوں نےاپنی تنظیم کو چلانے کے لیے منفرد طریقہ اختیار کیا ہے ۔ وہ ضرورت مند عورتوں اور بچو ں کی مدد کے لیےپولیس ، ایف بی آئی ، ہوم لینڈ سیکیورٹی ، تعلیمی اداروں اور ، اسپتالوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتی ہیں۔ ان کے ادارے کے لیے ڈاکٹروں ، نفساتی ماہرین اور وکلاء کی ایک ٹیم رضاکارانہ طور پر کام کرتی ہے۔

سومی علی کا تفصیلی انٹرویو آپ وائس آف امریکہ کی ویب سائٹ پر موجود 2 دسمبر کو نشر ہونے والے پروگرام 'ہر دم رواں ہے زندگی' کی ریکارڈنگ میں سن سکتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG