رسائی کے لنکس

پاکستان: 70 ارکانِ پارلیمان کی رکنیت معطل ہونے کا امکان


الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ منگل کو ان قانون سازوں کی رکنیت کی معطلی کے نوٹیفیکشن جاری کر دیے جائیں گے جنھوں نے اب تک اپنے اثاثوں کی تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں۔

پاکستان کے الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ منگل کو ان 70 قانون سازوں کی رکنیت کی معطلی کے نوٹیفیکشن جاری کر دیے جائیں گے جنھوں نے اب تک اپنے اثاثوں کی تفصیلات کمیشن کو جمع نہیں کرائیں ہیں۔

کمیشن کے ترجمان خورشید عالم کا کہنا ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ سے تعلق رکھنے والے یہ اراکین قانون سازی کے کسی عمل میں شرکت نہیں کرسکیں گے، اور الیکشن کمیشن کو متعلقہ دستاویزات کی فراہمی پر ہی ان کی رکنیت بحال کی جائے گی۔

وائس آف امریکہ سے پیر کو گفتگو میں خورشید عالم نے بتایا کہ کمیشن کو تقریباً 1,100 قانون سازوں کی طرف سے اثاثوں کی تفصیلات موصول ہوئی ہیں، جو کہ خوش آئند پیش رفت ہے۔

’’پہلے تو ہم 150 یا 200 قانون سازوں کو کام سے روکتے تھے اور کبھی تو یہ تعداد 300 بھی ہو جاتی تھی، مگر اس بار یہ تعداد بہت کم ہے۔ میڈیا میں ان کے نام آتے ہیں تو وہ الرٹ ہو جاتے ہیں اور پھر وہ اپنے نام فہرست سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘

پاکستان میں قانون سازی اور جمہوریت سے متعلق امور پر تحقیقات کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’پلڈیٹ‘‘ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر احمد بلال محبوب کا کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے اثاثوں کی تفصیل جمع نا کروانے والے قانون سازوں کو ’’ضرورت سے زیادہ‘‘ گنجائش دی ہوئی ہے۔

’’ہمارے قانون ساز ذمہ دار لوگ ہیں لیکن پھر بھی وزیر اعظم اور وزراء تک نے یہ دستاویزات جمع نہیں کروائی ہوتیں۔ یہ اتنے اہم اور ذمہ دار لوگ ہیں کہ ان سے تاخیر کی توقع ہی نہیں ہونی چاہیئے۔‘‘

آئین کے تحت الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں قانون سازوں کی طرف سے فراہم کردہ اثاثوں کی تفصیلات کی از خود جانچ پڑتال کرنا شامل نہیں بلکہ صرف اعتراضات سامنے آنے پر ہی کارروائی ممکن ہوسکتی ہے۔

اثاثوں سے متعلق غلط کوائف جمع کروانے کا الزام ثابت ہونے پر کسی بھی قانون ساز کی رکنیت منسوخ ہو سکتی ہے۔

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ جانچ پڑتال کے عمل کے بارے میں آئین میں ترمیم کی ضروت ہے، تاہم اُن کے بقول الیکشن کمیشن کے اعلیٰ حکام بظاہر کوئی اضافی ذمہ داری حاصل کرنا نہیں چاہتے۔

’’الیکشن کمیشن کے ذمے پہلے جو کام ہے وہ بہت مشکل سے پورا کر پاتا ہے اور یہ (جانچ پڑتال) بہت بڑا کام ہے۔ تو میرے خیال میں ان کوائف کو زیادہ سے زیادہ عام کیا جائے اور اس کا دائرہ بڑھاتے ہوئے سرکاری افسروں، ججوں اور جرنیلوں تک پھیلایا جائے۔ جب یہ معلومات لوگوں تک جب پہنچیں گی تو پھر صیحح انداز میں سکورٹینی ہو سکے گی۔‘‘

پاکستان میں پہلی مرتبہ رواں سال اقتدار انتخابات کے ذریعے ایک جمہوری حکومت سے دوسری کو منتقل ہوا، تاہم مبصرین کے بقول ملک میں اس نظام کے تسلسل کے لیے تمام سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کا مل کر کام کرنا نا گزیر ہے۔
XS
SM
MD
LG