رسائی کے لنکس

کچھ 'گئے گزرے' وزراء کے بارے میں


کچھ 'گئے گزرے' وزراء کے بارے میں
کچھ 'گئے گزرے' وزراء کے بارے میں

وفاقی کابینہ تحلیل ہوگئی اوراس طرح جو کل تک وزیر تھے وہ آج"مستعفی وزیر" ہوگئے۔ ہوسکتا ہے ان میں سے قسمت کے دھنی کچھ لوگ پلٹ آئیں مگر زیادہ تر کے بارے میں امکان ہے کہ وہ کم از کم حکومت کی باقی ماندہ مدت میں لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ ان وزراء کے منہ مبارک سے آپ نے پچھلے تین سالوں میں بہت کچھ سنا مگر آج ان "گئے گزرے" وزراء کے بیانات سے جو اینگل ہم نے نکالے ہیں وہ آپ نے یقینا کیا سوفیصدی نہیں سنے ہوں گے ۔۔۔ کیوں کہ ہم بتا ہی آج رہے ہیں۔۔۔

ان وزراء سے بہت زیادہ معذرت کے ساتھ ۔۔۔ ملک اس وقت بہت سارے مسائل کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ لیکن ہمارے ایک اعلیٰ وزیر تھے وہ ایک تیر سے دو شکار کرنے کے عادی تھے۔ موصوف رہتے تو اسلام آباد میں ہیں لیکن لندن اور کراچی کو بھی اپنا مسکن بنائے رکھتے تھے۔ وزیر صاحب کو جانے کیسے آنے والے واقعات کے بارے میں پہلے ہی معلوم ہو جاتا تھا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان کے قابو میں کچھ موکل تھے جو انہیں پہلے سے سب کچھ بتادیا کرتے تھے۔ لہذاوہ اسلام آباد کی پر فضا ہوا میں صبح سویرے اٹھنے کے بعدناشتے سے پہلے ایک بیان جاری کرتے تھے جس میں مختلف شہروں کا نام بتاکر کہا جاتا تھا کہ ان میں اتنے خود کش بمبار داخل ہو چکے ہیں اور تخریب کاری کا خدشہ ہے۔ پھر کیاتھا۔۔۔ ان کے اس بیان سے ٹی وی چینلز کو صبح ہی صبح سرخ رنگ کا 'فیتہ چلانے کا موقع ہاتھ آجاتا۔ ویسے بھی صبح کے وقت ٹی وی چینلز کے پاس خبریں نہیں ہوتیں، مگر جب ان کے ہاتھ یہ پروانہ لگتا تو ہر کوئی موصوف کا بیان پہلے چلانے کی کوشش میں لگ جاتا اور اس طرح کچھ وقت میں ٹی وی اسکرین پر ریڈ الرٹ میں صرف موصوف کا ہی نام دیکھائی دیتا۔

اس کے بعد دن میں اگر تو کہیں کوئی دھماکا یا ناخوشگوار واقعہ ہوگیا تو فوری طور پر پریس کانفرنس طلب کر لی جاتی اور بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ کہا جاتا کہ ہم نے پہلے ہی شہر میں خطرے سے آگاہ کر دیا تھا ۔ پھر کچھ ناراضگی کی ادا سے کہا جاتا ہماری بات پرکسی نے توجہ ہی نہیں دی ۔ اب اگر دن میں کچھ نہ بھی ہوا تب بھی اس کا کریڈیٹ وہ خود ہی لے لیتے تھے یہ کہہ کر کہ آج ملک میں تخریب کاری کا خطرہ تو تھا لیکن ہم نے صبح ہی تمام اداروں کو آگاہ کر دیا تھا جن کی چوکسی کے سبب کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔

ویسے بعض الفاظ ان کی میموری میں کسی روبوٹ کی طرح محفوظ تھے۔ مثلاً طالبان، کرائے کے قاتل، کالعدم تنظیمیں،تفتیش، مزید نفری طلب، حالات جلد قابو میں آجائیں گے، قوم متحد ہے، جہاں بھی پائے جائیں گے کارروائی کریں گے، کسی کو امن و امان کی حالت خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، وغیرہ وغیرہ ۔۔۔

موصوف کی وجہ سے آج عام شہری کو بھی معلوم ہے کہ ہر واقعہ میں ایک یا ایک سے زائد نامعلوم افراد شامل ہوتے ہیں جنہوں نے سلیمانی ٹوپی پہن رکھی ہوتی ہے اورجو ہر واردات کے بعد غائب ہو جاتے ہیں۔ اب اس میں ہمارے وزیر صاحب یا پولیس کا کیا قصور، قصور تو اس خود کش حملہ آور کا ہے جو بغیر آگاہ کیے واردات کر بیٹھتا ہے اور واردات کے بعد جاتے ہوئے نہ تو کوئی ایڈریس دیتا ہے اور نہ موبائل نمبر ۔

خیر دہشت گردی پر قابوپانا تو وزیر کے بائیں ہاتھ کا کام ہے لیکن یہ دائیں ہاتھ کو بھی خالی نہیں رہنے دیتے۔ اس کے علاوہ یہ پارٹ ٹائم میں بھی ملک و قوم کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں اور اگر کوئی اتحادی جماعت حکومت سے الگ ہونے کی کوشش کرے تو یہ اسپائیڈر مین کی طرح اسکے قائد کے پاس جاپہنچتے ہیں، چاہے وہ لندن میں ہو، پشاور میں یا ڈیرہ اسماعیل خان میں ۔

کیونکہ سیاسی قائدین کے گرم دماغوں کوبھی ٹھنڈا کرنے کاکام یہی کرتے ہیں اور جہاں کسی قائد کی زبان سے آگ نکل رہی ہو وہاں اسے ایک کمرے میں بند کر کے اس پر ایسا منتر پڑھ کر پھونکتے ہیں کہ اگلے ہی لمحے وہاں سے دھواں اٹھتا دکھائی دیتا ہے ۔

ملک میں توانائی کا لاکھ بحران ہو لیکن ہمارے پاس ایک ایسا دماغ بھی ہے جو ذمہ داریاں سونپے جانے کے بعد متعدد بار اس پر قابو پاچکا ہے ۔ یہ موصوف باقاعدہ تاریخ دیتے ہیں اور اس پر قائم رہتے ہیں ۔ ان کی اسی وجہ سے بعض ناقدین انہیں تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیں لیکن یہ اپنی بات سے کبھی پیچھے نہیں ہٹتے۔ ان کے ذہن میں 31 دسمبر کی تاریخ ایسی فٹ ہے کہ سربراہ مملکت بھی اسے نہیں نکال پائے۔ متعدد بار انہیں روکا گیا کہ یہ بات منہ سے مت نکالا کرو لیکن وہ نہیں مانتے۔ ذرائع کے مطابق ان صاحب کو اب بعض احباب تجویز دے رہے ہیں کہ وہ 29فروری کی تاریخ دیا کریں تا کہ چار سال بعد تک ہو سکتا ہے حکومت کا بیڑا پار ہو جائے ۔

ہمارا پڑوسی ملک ہر وقت ہم پر برہم رہتا ہے۔ اگر وہاں کوئی کیلے کے چھلکے سے بھی پھسل کر گر جائے تو اس کا الزام ہم پر ہوتا ہے۔ لیکن ان کے الزامات کا جواب دینے کے لئے ہمارے پاس ایک ایسے وزیر تھے جن کی زبان سے ہر وقت یہی نکلتا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون، تمام مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں، ایڈ نہیں ٹریڈ چاہتے ہیں، افغان ٹرانزٹ معاہدے سے فائدہ ہی فائدہ ہو گا، یوٹرن نہیں لیتے، زمین استعمال نہیں ہونے دیں گے، شواہد فراہم کیے جائیں وغیرہ وغیرہ ۔۔۔

یہاں ایک اور نایاب دماغ کا ذکرکرتا چلوں۔ ان صاحب کے آتے ہی گزشتہ 60 سالوں سے پاکستان میں چلنے والی تھکی ہاری لمبی گاڑیوں میں امید کی ایک کرن پیدا ہو گئی اور انہوں نے بھی ان گاڑیوں کی امیدوں پر پورا اترنے کی بھر پور کوشش کرتے ہوئے ایک سو تین ٹرینوں کو آرام کا حکم صادر فرما یا۔ ان کے خیال میں اگر کسی چیز سے منافع حاصل نہ ہو رہا ہو تو اسے کباڑ خانے میں پھینک دیا جائے۔ یہ بھی کچھ رٹے رٹائے جملے دہراتے رہتے ہیں۔ مثلاً 54 ارب روپے کی ضرورت ہے، 400 انجن چاہییں، بند کر دیں گے، ہماری قربانیاں سب سے زیادہ ہیں، چین مدد کرے گا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔

ایک قانون خان بھی تھے ۔ انہوں نے مخالفین میں خوب کھلبلی مچا رکھی تھی ۔ جب بھی کسی ٹی وی چینل پر دکھائی دیتے دل زور زور سے دھڑکنا شروع ہو جاتا ۔ ڈر نام کی چیز ان سے خود ڈرتی ہے اور کوئی کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اور کچھ بھی حکم دیتا رہے یہ کرتے وہی تھے جو ان کا دل چاہتا تھا ۔ یہ صاحب بڑے دلچسپ ہیں۔ کبھی تو وہ بتاتے ہیں کہ ہم نے قانون کے تحت دو جوتے پہن رکھے ہیں، کبھی کہیں جا کر پیسے بانٹنے شروع کر دیتے اور پیسے بھی انہیں دیتے جنہیں ان کی ضرورت نہیں اور جہاں ضرورت ہوتی ہے وہاں کہتے یہ قدرتی آفات کی زد میں ہیں، ہم کیا کر سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ ایک عاشق صاحبہ بھی تھیں۔ ان کا کام ملک میں بچوں کو پیدا ہونے سے روکنا تھا۔ کھانے پینے کا اتنا شوق کہ پاکستان کے حالات خراب ہونے کے باوجود پڑوسی ملک بھارت میں ایک شادی کی دعوت پر پہنچ گئیں ۔ جب یہ کسی ٹی وی شو پر آتی ہیں تو اکثر والدین اپنے بچوں کو کمروں سے باہر نکال دیتے ہیں یا پھر چینل تبدیل کر نے پر مجبور ہوتے ہیں ۔۔ البتہ بعض نوجوان گھر والوں سے چھپ کر ان کے ٹی وی شو ضرور دیکھتے تھے۔ ان کی زبان پر یہ جملے رہتے تھے ۔۔۔ شادی سے تعلقات بہتر ہوں گے، آبادی کو کنٹرول کر کے ہی دم لیں گے، ثانیہ کو سونے کا تاج دیا تھا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔

XS
SM
MD
LG