رسائی کے لنکس

اسلام آباد، ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر دباؤ کے سامنے نہیں جھکے گا،اسحاق ڈار


ایک ایرانی کارکن 11 مارچ 2013 کو ایران میں پاکستانی سرحد کے قریب پاکستان-ایران گیس پائپ لائن پروجیکٹ کے پاس سے گزر رہا ہے۔
ایک ایرانی کارکن 11 مارچ 2013 کو ایران میں پاکستانی سرحد کے قریب پاکستان-ایران گیس پائپ لائن پروجیکٹ کے پاس سے گزر رہا ہے۔
  • ڈار نے منگل کو ایک پریس بریفنگ میں، امریکہ کا نام لیے بغیر کہا ہم کسی کو ویٹو استعمال نہیں کرنے دیں گے۔
  • ایران نے 2011 میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے پائپ لائن کا اپنی جانب کا حصہ مکمل کر لیا ہے۔
  • بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے وہ پاکستان ایران پائپ لائن کی حمایت نہیں کرتی کیونکہ تہران کے جوہری پروگرام کی وجہ سے اس پر امریکی پابندیاں عائد ہیں۔

پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے منگل کو کہا ہے کہ ان کا ملک ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کی تعمیر سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔

ڈار نے منگل کو ایک پریس بریفنگ میں، امریکہ کا نام لیے بغیر کہا، "ہم کسی کو بھی اپنا ویٹو استعمال نہیں کرنے دیں گے۔"

پاکستان اور ایران نے جون 2009 میں گیس کی فروخت اور خریداری کے معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کی ترسیل دونوں ملکوں کے درمیان بچھائی جانے والی پائپ لائن سے ہونی تھی۔یہ پائپ لائن ایران کے جنوبی پارس فیلڈ سے توانائی کے بحران سے دوچار پاکستان کو یومیہ 750 ملین سے 1,000 ملین مکعب فٹ گیس فراہم کرے گی۔

ایران نے 2011 میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے پائپ لائن کا اپنی جانب کا حصہ مکمل کر لیا ہے۔ بنیادی طور پر امریکی پابندیوں کے خوف سے، پاکستان کی طرف سے تعمیر میں تاخیر جاری ہے۔

ابتدا سے ہی اس منصوبے پر امریکہ کی جانب سے خدشات کا اظہار کیا گیا تھا۔

جب کہ ایران نے 2011 میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے پائپ لائن کا اپنا حصہ مکمل کر لیا ہے۔ پاکستان کی طرف سے امریکی پابندیوں کے خوف سے تعمیراتی تاخیر جاری ہے۔

بائیڈن انتظامیہ نے متعدد بار کہا ہے کہ وہ پاکستان ایران پائپ لائن کی حمایت نہیں کرتی کیونکہ تہران کے جوہری پروگرام کی وجہ سے اس پر امریکی پابندیاں عائد ہیں۔

پاکستان کے وزیر خارجہ نے اسلام آباد میں صحافیوں کو بتایا کہ ہم پر کوئی حکم صادر نہیں کیا جا سکتا،"حکومت یہ فیصلہ کرے گی کہ پاکستان کے مفادات کی بنیاد پر اسے کیا، کب اور کیسے کرنا ہے۔"

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی، 22 اپریل، 2024 کو اسلام آباد، پاکستان میں ایک استقبالیہ تقریب کے دوران، پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ۔ (فوٹو وزیر اعظم آفس بذریعہ اے پی)
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی، 22 اپریل، 2024 کو اسلام آباد، پاکستان میں ایک استقبالیہ تقریب کے دوران، پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ۔ (فوٹو وزیر اعظم آفس بذریعہ اے پی)

فروری میں، پاکستان کی سبکدوش ہونے والی نگراں حکومت نے منصوبے میں تاخیر کی وجہ سے اربوں ڈالر کے جرمانے سے بچنے کے لیے ایرانی سرحد سے ملحق پاکستانی علاقے میں پائپ لائن کا ایک چھوٹا سا حصہ تعمیر کرنے کی منظوری دی تھی۔

مارچ میں اقتدار سنبھالنے والی وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نے ابھی تک اس منصوبے پر کام شروع نہیں کیا ہے۔

اپریل کے آخر میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان کے اختتام پر جاری ہونے والے ایک طویل مشترکہ بیان میں اس پائپ لائن کا صرف سرسری سا ذکر آیا تھا، جس کی وجہ سےا یسی قیاس آرائیاں سامنے آئیں کہ یہ منصوبہ پٹری سے اتر گیا ہے۔

ڈار نے اس تصور کو مسترد کرتے ہوئے کہ پاکستان امریکہ کے دباؤ کی وجہ سے اس منصوبے میں تاخیر کر رہا ہے کہا،"ہمیں اپنی دلچسپی کو دیکھنا ہے۔ ہمیں اپنے وعدوں کو دیکھنا ہو گا،" تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ پائپ لائن "ایک ایسا مسئلہ ہے جو کافی پیچیدہ ہے۔"

رئیسی کے دورے کے بعد جس میں دونوں فریقوں نے دو طرفہ تجارت کو 10 ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا، امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بار پھر خبردار کیا کہ اسلام آباد کو تہران کے ساتھ کاروبار کرنے کے نتیجے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان، ویدانت پٹیل نے گزشتہ ماہ ایک بریفنگ کے دوران کہا، "عمومی طور پر ہم ایران کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر غور کرنے والے کسی بھی شخص کو پابندیوں کے ممکنہ خطرے سے آگاہ رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔"

پاکستان کی وزارت خارجہ کا ماضی میں استدلال تھا کہ اسلام آباد کو تہران کے ساتھ پائپ لائن کی تعمیر کے لیے واشنگٹن سے پابندیوں میں چھوٹ کی ضرورت نہیں ہے۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ گیس فراہم ہونے کے بعد پابندیاں لاگو ہوِں گی۔

پاکستان کی وزارت خارجہ اور توانائی کی وزارت نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ آیا اسلام آباد نے واشنگٹن سے پابندیوں میں چھوٹ کے لیے درخواست کی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG