رسائی کے لنکس

عرب دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والی احتجاجی لہراب فلسطینی علاقوں تک پہنچ گئی


عرب دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والی احتجاجی لہراب فلسطینی علاقوں تک پہنچ گئی
عرب دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والی احتجاجی لہراب فلسطینی علاقوں تک پہنچ گئی

تقریبا ًپوری عرب دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والی احتجاج کی لہر اب فلسطینی علاقوں تک بھی پہنچ گئی ہے۔ تاہم وائس آف امریکہ کے لوئی ریمیرز مغربی کنارے کے شہر رملّہ سےبتاتے ہیں کہ فلسطین میں مظاہرین اس کو ایک الگ انداز سے دیکھتے ہیں۔

رملّہ اور مغربی کنارے کے دوسرے حصوں میں ہونے والے مظاہرے باقی عرب دنیا میں ہونے والے مظاہروں جیسے ہی ہیں۔ مگر تیونس ، مصر اور لیبیا کی طرح یہاں مظاہرین اپنے رہنماؤں کو ہٹانا نہیں چاہتے۔

اٹھائیس سالہ نجوان برقدار رملّہ میں مظاہرے منظم کرنے والے کارکنوں میں سے ایک ہیں۔ برقدار کہتی ہیں: ’میں فلسطینی عوام کیلئے آزادی اور انصاف حاصل کرنا چاہتی ہوں۔‘
برقدار اور دوسرے فلسطینی مظاہرین مغربی کنارے پر حکمرانی کرنے والےالفتح دھڑے اور غزہ کی پٹی میں عسکریت پسند گروپ حماس کے درمیان نفاق کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
مظاہرین کا خیال ہے کہ اسرئیلی قبضے کو ختم کرنے میں منقسم قیادت فلسطینیوں کے آڑے آ رہی ہے۔
رملّہ میں ایک کالم نگار محمد عبدالحمید کا کہنا ہے کہ ہمسایہ ممالک سے انقلاب کا جوش و خروش اب فلسطین تک پھیل گیا ہے۔
عبدالحمید کہتے ہیں: ’اب سب کچھ ممکن ہے۔ انقلاب کے اس دور میں فلسطینی نوجوان موجودہ صورتحال کو تبدیل کر سکتے ہیں اور حماس فتح تنازع سے بلند ہوکر کام کر سکتے ہیں۔‘
گزشتہ تیس برس میں فلسطینی اسرائیل کیساتھ دو جنگیں لڑ چکے ہیں جن میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے اور خود کش حملوں کا آغاز ہوا۔ اسرائیلی قبضے کیخلاف کئی فلسطینی آج بھی تشدد کا راستہ اختیار کرنے کے حق میں ہیں۔ تاہم برقدار کا کہنا ہے کہ ہمیں ایک نئے انداز سے اس کا مقابلہ کرنا ہے۔
لوگوں کی حمایت حاصل کر نے کیلئے برقدار اور دوسرے منتظمین کا زیادہ تر انحصار فیس بک اور سوشل میڈیا پر ہے کیونکہ کچھ لوگ ویسےہی جلسے جلوسوں کے حامی نہیں ہوتے۔
انکا کہنا ہے کہ فلسطینی نوجوانوں کیلئے سوشل میڈیا تشدد کا نعم البدل ہے۔ اسرئیل کی فوجی برتری کے سامنے سوشل میڈیا زیادہ موثر ہو سکتا ہے۔
برقدار کے الفاظ میں :’ہم نے اپنی تاریخ سے سیکھا ہے کہ مسلح جدوجہد سے ہمیں ابھی تک کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ ‘
انکے خیالات سے فلسطینی صدر محمود عباس اور وزیر اعظم سلمان فایاد کے موقف کی عکاسی ہوتی ہے جو دہشت گردی کو غلط سمجھتے ہیں۔

اتحاد کے حق میں جس طرح کے مظاہرے مغربی کنارے میں جاری ہیں ویسے ہی مظاہرے غزہ میں بھی ہوئے ہیں۔
تاہم حماس کی قیادت اتحاد کے حوالے سے بٹی ہوئی ہے۔ کچھ لوگ اعتدال پسند فتح قیادت کیساتھ شراکت میں اقتدار سے خطرہ محسوس کرتے ہیں جبکہ کچھ لوگ اسے مغربی کنارے میں اپنی حیثیت منوانے کیلئے ایک موقعے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
حماس نے پہلے تو مظاہروں کی اجازت دی مگر پھر روک دیا۔
ادھر اسرئیل فلسطین میں ایک ایسی متحد حکومت کے حق میں نہیں ہے جس میں ایرانی حمایت والی حماس شامل ہو جس کے نصب العین میں اسرئیل کو تباہ کرنا شامل ہے۔
تاہم نجوان جیسے مظاہرین کیلئے انقلاب کا راستہ پرانے طور طریقوں سے جدا ہے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG