رسائی کے لنکس

پھرتیلی مائیں اپنی بیٹیوں کے لیے مثال بن سکتی ہیں: مطالعہ


تفتیش کاروں کی ٹیم نے کہا بیٹیوں کے طرز عمل اور نظریات پر عام طور سے اپنی ماؤں کی گہری چھاپ ہوتی ہے اور سائنسی شواہد سے بھی یہ بات ثابت ہوگئی ہے،کہ لڑکیوں کی جسمانی سرگرمیوں پر ماؤں کا گہرا اثرورسوخ تھا ۔

سائنس دانوں نے ماؤں کو تجویز دی ہے کہ اگر، وہ اپنی بیٹیوں کو جسمانی طور پر فعال بنانا چاہتی ہیں تو سب سے پہلے انھیں خود اس ہدایت پر عمل کرنا ہو گا۔

آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف نیو کاسل کی نئی تحقیق سے وابستہ تفتیش کاروں کی ٹیم نے کہا کہ بیٹیوں کے طرز عمل اور نظریات پر عام طور سے اپنی ماؤں کی گہری چھاپ ہوتی ہے اور سائنسی شواہد سے بھی یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ لڑکیوں کی جسمانی سرگرمیوں پر ماؤں کا گہرا اثرورسوخ تھا۔

'میٹرنل اینڈ چائلڈ ہیلتھ 'نامی سائنسی رسالے میں شائع ہونے والے نتائج سے پتا چلتا ہے، جو لڑکیاں پھرتیلی ماؤں کے ساتھ تھیں، وہ جسمانی طور پر زیادہ فعال تھیں، اس کے برخلاف بیٹھ کر وقت گزارنے والی ماؤں کی بیٹیوں میں اپنا زیادہ وقت اسکرین کے سامنے گزارنے کا رجحان تھا۔

نتائج سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ ہر عمر کی لڑکیاں اور عورتیں، لڑکوں اور مردوں کے مقابلے میں جسمانی طور پر کم فعال تھیں اور جسمانی فعالیت کے یہ فرق عمر کے ساتھ بڑھ رہا تھا۔

بیٹی کی جسمانی سرگرمیوں پر ماؤں کے طرز عمل کے اثرات کو اچھی طرح سے سمجھنے کے لیے محقق ایلس بارنس اور ان کی ٹیم نے ماں اور کم عمر بیٹیوں کے جوڑوں کو دیکھا، جو جسمانی سرگرمیوں میں مداخلت کے ایک پروگرام کا حصہ تھیں۔

تجرباتی مطالعے کے دوران شرکاء نے سات روز میں تقریباً ہر روز آٹھ گھنٹے تک الیکٹرانک ڈیوائس ایکسیلرو میٹر' پہنے رکھا، جس سے ان کی حرکات و سکنات کا ریکارڈ جمع کیا گیا اور جسمانی سرگرمیوں کی سطح کی پیمائش ہوئی، اس کے علاوہ محقق بارنس نے شریک ماں اور بیٹیوں کے اسکرین کے اوقات کا بھی ریکارڈ جمع کیا۔

مطالعہ میں شامل تقریباً دو تہائی مائیں زائد الوزن یا موٹی تھیں اور تقریباً تیس فیصد لڑکیاں فربہ تھیں۔

نتائج سے پتا چلا کہ جو مائیں باقاعدگی سے ورزش کے بارے میں مثبت سوچ رکھتی تھیں، انھوں نے زیادہ وقت اعتدال پسند جسمانی سرگرمیوں میں گزارا، ماہرین کو یہ بھی پتا چلا کہ ان کی بیٹیوں کو جسمانی سرگرمیوں کے لیے اپنی ماؤں کی طرف سے منطقی تعاون حاصل تھا، یعنی انھیں ماؤں کی طرف سے کھیل کود کی مصروفیات اور دوڑوں کے مقابلوں میں شرکت کرنے کے لیے کہا جاتا تھا۔

دوسری طرف جن لڑکیوں کے پاس کھیل کود کی سرگرمیوں کے لیے ماؤں کا تعاون نہیں تھا، وہ اپنا زیادہ وقت اسکرین یعنی کمپیوٹر اور ٹی وی کے آگے بیٹھ کر گزار رہی تھیں۔

تحقیق کے مطابق ایک واحد عنصر جو بیٹیوں کے اسکرین کے اوقات کے ساتھ منسلک پایا گیا، وہ ماؤں کی غیر فعالیت یا بیٹھنے کی عادت تھی۔

اس نتیجے کے برعکس ایک فعال ماں کے ساتھ ایک پھرتیلی بیٹی کے ہونے کا امکان زیادہ تھا تاہم محققین نے کہا کہ ماؤں کی جسمانی سرگرمیوں کی سطح کا لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں پر زیادہ مضبوط اثرورسوخ تھا۔

پروفیسر بارنس نے کہا کہ مائیں اپنی بیٹیوں کے لیے ایک مثال بن سکتی ہیں، انھیں اپنی بیٹیوں کو ٹی وی اور دیگر اسکرین کی دلچسپیوں سے دور رکھنے کے لیے جسمانی سرگرمیوں میں مشغول کرنا چاہیئے، جس کے لیے ضروری ہے کہ ماں اور بیٹیاں ایسی جسمانی سرگرمیوں میں حصہ لیں جنھیں وہ پسند کرتی ہیں جیسا کہ چہل قدمی کرنا، سائیکل چلانا، تیراکی اور دیگر چھوٹی موٹی سرگرمیاں مثلاً کار دور پارک کرنا اور منزل تک پیدل چلنا، اسی طرح لفٹ کے بجائے سیڑھیوں کا استعمال کرنا شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG