طالبان حکام نے بدھ کے روز جنوبی افغانستان میں دو خواتین سمیت 27 افراد کو چوری، زنا اور دیگر جرائم کے الزام میں سرعام کوڑوں کی سزا ئیں دیں۔ حکام اور مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ یہ سزائیں جنوبی ہلمند اور زابل کے صوبوں میں دی گئیں۔
ہلمند میں صوبائی حکومت کے ترجمان محمد قاسم ریاض نے بتایا کہ صوبائی دارالحکومت لشکر گاہ کے اسپورٹس اسٹیڈیم میں 20 افراد کو کوڑے مارے گئے۔
ترجمان ریاض کا کہنا تھا کہ ہر ایک شخص کو 35 سے 39 تک کوڑے مارے گئے۔ اس موقع پر طالبان کے صوبائی عہدیدار ، مذہبی رہنما اور مقامی عمائدین سمیت بڑی تعداد میں عام لوگ بھی موجود تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کچھ مجرموں کو قید کی سزا بھی دی گئی ہیں۔
طالبان کے زیر انتظام سرکاری خبر رساں ایجنسی نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ زابل کے دارالحکومت قلات میں پانچ مردوں اور دو عورتوں کو ناجائز تعلقات قائم کرنے، ڈکیتی اور دیگر جرائم کے ارتکاب پر سرعام کوڑے مارے گئے۔ تاہم ایجنسی نے مزید کوئی تفصیل نہیں بتائی۔
افغانستان کے سخت گیر حکمرانوں نے حالیہ ہفتوں میں کئی صوبوں اور دارالحکومت کابل کے فٹ بال اسٹیڈیم اور کھلی جگہوں پر درجنوں مردوں اور عورتوں کو سرعام کوڑے مارنے کی سزائیں دی ہیں۔ طالبان اسلامی قوانین کی اپنی تشریح کے مطابق مختلف جرائم پر سزائیں دے رہے ہیں۔
بدھ کو سرعام کوڑے مارے جانے سے ایک ہفتہ قبل طالبان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی بار ایک مجرم کو سرعام موت کی سزا دی تھی۔
طالبان حکام نے بتایا کہ قتل کے جرم پر سزا اسلامی قانون کے تحت ’ قصاص‘کے مطابق دی گئی جس میں مجرم کو اسی طرح ہلاک کیا جاتا ہے جیسے اس نے مقتول کو قتل کیا تھا۔ اس سزا پر عمل درآمد کے لیے صوبہ فرح کے ایک پر ہجوم اسٹیڈیم میں مجرم کو مقتول کے والد کی رائفل سے گولی ماری گئی۔
اس سزا پر بین الاقوامی سطح پر تنقید کی گئی اور اس کی مذمت کرتے ہوئے سرعام سزائیں فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
افغانستان میں امریکی مشن کی انچارج ڈی افیئرز کیرن ڈیکر نے فرح میں موت کی سزا کی مذمت کرتے ہوئے ٹوئٹر پر کہا ہے کہ جرائم پر سزاؤں کو کھیلوں کے مقابلوں کے طور پر پیش کرنا افغانوں کے وقار اور انسانی حقوق کی توہین ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس اعتراض کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔
طالبان نے گزشتہ ماہ کے اوائل میں سپریم لیڈر، ہبت اللہ اخوندزادہ کی جانب سے ججوں کو شریعت کے مکمل نفاذ کا حکم دیے جانے کے بعد سر عام سزاؤں پر عمل درآمد کرنا شروع کیاہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سرعام پھانسی اور کوڑے مارنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ طالبان بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کو مکمل طور پر نظر انداز کرنے کے ساتھ انسانی حقوق کے اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے گزشتہ ہفتے طالبان کو خبردار کیا تھا کہ وہ 1996 سے 2001 تک افغانستان میں اپنے سابقہ دور حکومت کے رجعت پسندانہ اور مکروہ طرز عمل کو واپس نہ لائیں۔
( وی او اے نیوز)