|
افغانستان کے طالبان حکمرانوں نے جمعرات کو دو افراد کو سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں 15 سال قید کی سزا سنائی، جب کہ تیسرے شخص کو 30 کوڑے مارے گئے اور سیاست سے منسلک الزامات کے تحت جیل بھیج دیا گیا۔
کابل کی ڈی فیکٹو حکومت نے، جسے عالمی برادری نے ابھی تک سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا، تمام سیاسی جماعتوں اور سرگرمیوں کو غیر اسلامی سمجھتے ہوئے ملک بھر میں ان پر پابندی لگا دی ہے۔
طالبان کی سپریم کورٹ نے ایک بیان میں کہا کہ جمعرات کو یہ عدالتی کارروائیاں جنوبی صوبے قندھار میں کی گئیں تھیں۔
بیان میں کوئی تفصیل دیے بغیر کہا گیا ہے کہ عدالت نے ایک چوتھے فرد کو اخلاقی بدعنوانی کے جرم میں آٹھ ماہ قید کی سزا سنائی ہے۔
افغانستان کے حقیقی حکمران طالبان کے سپریم لیڈر، ہبت اللہ اخوندزادہ، قندھار میں مقیم ہیں ۔یہ وہ شہر ہے جہاں طالبان کی تحریک نے جنم لیا اور اس شہر کی حیثیت طالبان کے ایک سیاسی مرکز کی سی ہے۔
طالبان کے وزیر انصاف عبدالحکیم شرعی نے گزشتہ سال سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں سیاسی جماعتوں کے کام کرنے کی کوئی شرعی بنیاد نہیں ہے۔ وہ قومی مفاد کو پورا نہیں کرتیں اور نہ ہی قوم ان کی قدر کرتی ہے۔
اگست 2021 میں جب طالبان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو اس وقت حکومت کے پاس تقریباً 70 بڑی اور چھوٹی سیاسی جماعتیں باضابطہ طور پر رجسٹرڈ تھیں۔
اخوندزادہ اسلامی قانون یا شریعت کی اپنی سخت تشریح کے ذریعے اس غریب اور جنگ زدہ جنوبی ایشیائی قوم پر حکومت کر رہے ہیں۔ انہوں نے چھٹی جماعت سے آگے لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی لگا دی ہے اور زیادہ تر افغان خواتین کو سرکاری اور نجی کام کی جگہوں پر جانے سے روک دیا ہے۔
طالبان کھیلوں کے میدانوں میں سینکڑوں مرد اور خواتین تماشائیوں کی موجودگی میں کوڑے مارنے کی سزائیں دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سر عام سزائیں، جنسی بے راہ روی، گھر سے بھاگنے، چوری اور ڈکیٹی جیسے اخلاقی جرائم پر دی جاتی ہیں۔
کھیل کے میدانوں میں کئی قاتلوں کو بھی سر عام گولی سے ہلاک کرنے کی سزائیں دی جا چکی ہیں۔
مارچ کے آخری عشرے میں طالبان سپریم کمانڈر اخوندزادہ نے کہا تھا کہ وہ افغانستان میں سزاؤں کا اسلامی نظام نافذ کرنے کے لیے پرعزم ہیں، جس میں غیر قانونی جنسی افعال میں ملوث خواتین کو سر عام سنگسار کرنا بھی شامل ہے۔
اقوام متحدہ نے اس اعلان کو پریشان کن قرار دیا تھا۔
اقوام متحدہ اور دیگر عالمی مبصرین نے طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے أفغانستان میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر مسلسل تنقید کی ہے اور طالبان سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ خواتین اور شہری آزادیوں پر لگائی جانے والی پابندیاں واپس لیں۔
یاد رہے کہ امریکہ کے طالبان کے ساتھ دوحہ معاہدے کے بعد 2021 میں امریکہ اور نیٹو نے افغانستان سے اپنی فورسز نکال لیں تھیں جس سے کابل میں قائم بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت گر گئی تھی اور طالبان نے کابل میں داخل ہو کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔
(ایاز گل، وی او اے نیوز)
فورم