رسائی کے لنکس

ملالہ یوسفزئی، بکنگھم پیلس میں مدعو


سنڈے ٹائمز کی خبر کے مطابق، ’تعلیمی مہم کی دلیر اور سرگرم کارکن ملالہ یوسفزئی کی بہادری اور جرات نے ملکہ برطانیہ کو متاثر کیا ہے۔‘

لڑکیوں کی تعلیم کے لیے مہم چلانے والی پاکستانی طالبہ ملالہ یوسفزئی کی بہادری سے متاثر ہو کر انھیں بکنگھم پیلس میں مدعو کیا گیا ہے۔
برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز کی خبر کے مطابق بتایا گیا ہے کہ، ’تعلیمی مہم کی دلیر اور سرگرم کارکن ملالہ یوسفزئی کی بہادری اور جرات مندی نے ملکہ برطانیہ کو متاثر کیا ہے۔‘

ذرائع کا کہنا ہے کہ کوئین الزیبیتھ اس قبل ملالہ کی خیریت جاننے کے حوالے سے پاکستانی ہائی کمشنر واجد شمس الحسن کو بھی فون کر چکی ہیں۔
بکنگھم پیلس کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ، ’خیال کیا جا رہا ہے کہ ملالہ یوسفزئی بکنگھم پیلس میں دولت مشترکہ کی یونیورسٹیوں اور تعلیمی شعبے سے منسلک نوجوانوں کے ایک استقبالیہ میں شرکت کریں گی جس کی میزبانی کوئین الزیبیتھ اور ڈیوک آف ایڈنبرگ (شہزادہ فلپ ) کر رہے ہیں۔‘
ذرائع کے مطابق 18 اکتوبر کو بکنگھم پیلس میں منعقد ہونے والی تقریب دولت ِمشترکہ سے تعلق رکھنے والی نوجوان نسل کی تعلیمی سرگرمیوں کے فروغ کے طور پر منائی جا رہی ہے جس میں تعلیمی ادروں سے منسلک شخصیات اور اساتذہ کی بڑی تعداد کی شرکت متوقع ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ ’ملالہ پہلی بار دنیا کے سامنے ایک اسکول طالبہ کی تعلیمی مہم میں شمولیت اورعسکریت پسندوں کی نفرت کی کہانی پیش کرنے جا رہی ہے جو خود ملالہ کی اپنی کہانی ہے۔ ملالہ کی کتاب منگل کو تقریبا اسی دن شائع کی جارہی ہے جس دن طالبان نے اسے ایک سال پہلے اپنی گولی کا نشانہ بنایا تھا۔‘
میڈیا رپورٹس کے مطابق ملالہ رواں ہفتے میں امریکہ جانے کی تیاری کر رہی ہے جہاں وہ اپنی یاداشت 'آئی ایم ملالہ' کتاب کی رونمائی کریں گی۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ بکنگھم پیلس میں دعوت کی خبر کے ساتھ ہی ملالہ یوسفزئی کے بارے میں 11 اکتوبر کو نوبل امن انعام کے حوالے سےکم عمر فاتح کی حیثیت سے نامزد کیئے جانے کی قیاس آرائیوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے ۔
ملالہ نے اخبار سے ایک تفصیلی انٹرویو میں حادثے کے روز کی روداد بیان کرتے ہوئے بتایا کہ، ’9 اکتوپر 2012 کی دوپہر میں وہ اپنی اسکول بس میں تقریبا بیس سہیلیوں کے ہمراہ واپس گھر کی طرف جارہی تھیں تبھی بس اچانک سے رکی ایک شخص نے بس میں سوار لڑکیوں سے میرا نام لے کر شناخت پوچھی جس پر سب کی نظر میری طرف اٹھ گئیں اورمیں نے اپنی سہیلی کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا تب ہی عسکریت پسند نے براہ راست میرے سر کا نشانہ لے کر گولی چلا دی۔‘
ملالہ نے کہا، ’حالانکہ اسی روز اپنی ایک قریبی سہیلی کو فکر مند دیکھ کر میں نے اسے مطمئین کرنے کے لیے کہا تھا کہ طالبان ایک کم سن لڑکی پر کیوں حملہ کریں گے؟‘
ملالہ نے بیتے برس میں اپنے ساتھ ہونے والے اندوہناک واقعے کو دہراتے ہوئے کہا کہ، ’پاکستان سے انھیں کومے کی حالت میں برطانیہ کے کوئین الزیبیتھ ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں چھ روز بعد انھیں ہوش آیا تو سب سے پہلے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے زندگی بخشی لیکن پھر اجنبی ماحول نے مجھے حیران کر دیا کہ میں کہاں ہوں؟ میرے والدین کہاں ہیں؟ اور کون مجھے یہاں لے کر آیا ہے؟ جیسے سوالات مجھے پریشان کر رہے تھے لیکن وہ اپنے سر کی چار کامیاب سرجریز کے حوالے سے کہتی ہیں کہ انہیں دوسری زندگی برطانوی ڈاکٹروں کے مرہون منت ملی ہے۔‘
پاکستان میں آرمی کارڈیالوجی کے شعبے میں انتہائی نگہداشت کی ٹیم میں برطانوی نرسوں کے ساتھ ایک بچوں کے ہسپتال کے ماہر اسپشلیسٹ 'فیونا رینالڈ' بھی شامل تھیں۔

انھوں نےملالہ کے علاج کے تجربے کے بارے میں اپنے خیالات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ، مجھے لگا کہ'' مجھے لگا کہ اگر آج یہ چھوٹی سی لڑکی مر جاتی ہے تو یہ ایک ایک پاکستانی مدر ٹریسا کی موت ہوگی ۔''
انھوں نے اخبار سے کہا کہ، ’میں اپنے پروفیشن میں وہی کر رہا ہوں جس کی مجھے تربیت دی گئی ہے لیکن یہ چھوٹی سی لڑکی جسے نئی زندگی ملی ہے دنیا میں ایک بڑی تبدیلی لا نے کے لیے کام کر رہی ہے۔‘
XS
SM
MD
LG