رسائی کے لنکس

انتخابات کا تیسرا مرحلہ: مودی کا اپوزیشن پر ’ووٹ جہاد‘ کا الزام اور پاکستان کا ذکر


  • بھارتی وزیرِ اعظم کا اپوزیشن پر 'ووٹ جہاد' کا الزام
  • سابق وزیر سلمان خورشید کی بھانجی ماریہ عالم نے ایک ریلی کے دوران مسلمانوں کو جہاد سمجھ کر ووٹ دینے کا کہا تھا۔
  • ان کے اس بیان پر ان کے اور سلمان خورشید کے خلاف ایف آئی آر درج کی جا چکی ہے۔
  • سلمان خورشید نے جمعرات کو کہا کہ انھوں نے لفظ 'جہاد' بولا بھی نہیں تھا اس کے باوجود ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

بھارت میں 18ویں پارلیمان کی تشکیل کے لیے سات مرحلوں پر مشتمل انتخابات کے تیسرے مرحلے میں سات مئی کو 12 ریاستوں کے 94 حلقوں میں پولنگ ہو گی۔ اس موقع پر وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اپوزیشن پر ’ووٹ جہاد‘ کا الزام عائد کیا ہے۔

جن ریاستوں میں پولنگ ہوگی ان میں مہاراشٹرا، اترپردیش، گجرات، کرناٹک، مدھیہ پردیش، آسام، بہار، چھتیس گڑھ، گوا، مغربی بنگال، دادر اینڈ نگر حویلی اور دمن اینڈ دیو شامل ہیں۔ پہلے اور دوسرے مرحلے میں 19 اور 26 اپریل کو ووٹ ڈالے جا چکے ہیں۔

تیسرے مرحلے میں بی جے پی کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کا ہوم اسٹیٹ گجرات بہت اہم ہے۔ وہاں بی جے پی 1995 سے مسلسل برسراقتدار ہے۔ نریندر مودی اور امت شاہ نے وہاں متعدد ریلیاں کی ہیں۔

'ووٹ جہاد'

تجزیہ کاروں کے مطابق وزیرِ اعظم مودی ہر مرحلے سے قبل نئے نئے الزامات لگاتے ہیں۔ انھوں نے تیسرے مرحلے کے موقع پر اپوزیشن پر ’ووٹ جہاد‘ کا الزام لگایا ہے۔ مودی کے بقول ہم پہلے 'لو جہاد' اور 'لینڈ جہاد' سنتے آئے ہیں اب ووٹ جہاد شروع کیا جا رہا ہے۔

خیال رہے کہ سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید کی بھانجی اور سماج وادی پارٹی کی رہنما ماریہ عالم نے 30 اپریل کو اترپردیش کے شہر قائم گنج میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں سے اپیل کی تھی کہ وہ جہاد کے طور پر ووٹ دیں۔ کیوں کہ ووٹ کے ذریعے ہی مودی حکومت کو ہٹایا جا سکتا ہے۔

ان کے اس بیان پر ان کے اور سلمان خورشید کے خلاف ایف آئی آر درج کی جا چکی ہے۔ سلمان خورشید نے جمعرات کو کہا کہ انھوں نے لفظ 'جہاد' بولا بھی نہیں تھا اس کے باوجود ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

جنسی اسکینڈل کی گونج

بی جے پی کے لیے ریاست کرناٹک بھی بہت اہم ہے جو کہ گزشتہ برسوں میں جنوب میں اس کا گڑھ سمجھا جاتا تھا اور اب جہاں کانگریس کی حکومت ہے۔ وہاں 28 لوک سبھا حلقوں میں سے 14 پر 26 اپریل کو دوسرے مرحلے میں پولنگ ہو چکی ہے۔ بقیہ 14 حلقوں میں تیسرے مرحلے میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔ ریاست میں بی جے پی کو 2019 میں 25 نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔

لیکن اس بار ایک تو وہاں کانگریس کی حکومت ہے اور دوسرے ہاسن لوک سبھا حلقے سے بی جے پی کی حلیف پارٹی جنتا دل ایس کے امیدوار سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا کے پوتے اور سابق وزیر اعلیٰ ایچ ڈی کمارا سوامی کے بھتیجے پرجول ریونّا کے مبینہ جنسی اسکینڈل کی وجہ سے بی جے پی کو نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔

پرجول ریونا 2019 میں ہاسن سے کامیاب ہوئے تھے۔ ان پر درجنوں خواتین کے ساتھ جنسی تشدد کے الزامات ہیں۔ اس سلسلے میں تقریباً تین ہزار ویڈیوز وائرل ہیں۔ ہاسن میں 26 اپریل کو ووٹ ڈالے جا چکے ہیں اور وہ 27 اپریل کو مبینہ طور پر فرار ہو کر جرمنی چلے گئے ہیں۔

ریاستی حکومت نے اس اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی ہے جس نے پرجول کے خلاف لُک آؤٹ نوٹس جاری کیا ہے۔ پولیس نے پرجول کے والد اور رکن اسمبلی ایچ ڈی ریونا کو گرفتار کر لیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بی جے پی کی جیت کے امکانات پر اس معاملے کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ جنتا دل ایس اور بی جے پی نے اس معاملے سے خود کو الگ کر لیا ہے۔

اترپردیش کی سیاست

بی جے پی کے لیے اتر پردیش بھی بہت اہم ریاست ہے جہاں اس کے مغربی علاقے میں 10 نشستوں پر ووٹ ڈالے جائیں گے جن میں سنبھل، ہاتھرس، آگرہ، فتح پور سیکری، فیروز آباد، مین پوری، ایٹہ، بدایوں، آنولہ اور بریلی شامل ہیں۔

پہلے اور دوسرے مرحلے میں ’جاٹ بیلٹ‘ کہلائے جانے والے علاقے میں پولنگ ہوئی تھی جب کہ مذکورہ علاقہ ’یادو بیلٹ‘ کہلاتا ہے جہاں یادو برادری اور مسلمان خاصی تعداد میں ہیں۔ بی جے پی نے 2014 میں ان 10 میں سے سات میں اور 2019 میں آٹھ میں کامیابی حاصل کی تھی۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وزیرِ اعظم مودی کی مقبولیت میں کمی، کسانوں کے احتجاج اور ریاست میں کانگریس اور سماج وادی پارٹی میں انتخابی اتحاد کی وجہ سے بی جے پی کو دشواریوں کا سامنا ہے۔

تیسرے مرحلے میں جو اہم شخصیات میدان میں ہیں ان میں مرکزی وزرا جیوترادتیہ سندھیا، پرہلاد جوشی، کانگریس کے ادھیر رنجن چودھری، سماج وادی پارٹی کے صدراکھلیش یادو کی اہلیہ ڈمپل یادو، سینئر کانگریس رہنما دگ وجے سنگھ، بی جے پی کے شیو راج سنگھ چوہان، اے آئی یو ڈی ایف کے مولانا بدر الدین اجمل اور شرد پوار کی بیٹی این سی پی کی سپریہ سولے قابلِ ذکر ہیں۔

بھارتی انتخابات: دوسرا مرحلہ اہم کیوں ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:38 0:00

واضح رہے کہ پہلے اور دوسرے مرحلے میں 2019 کے مقابلے میں ٹرن آؤٹ کم رہا جس کی وجہ بی جے پی کارکنوں میں جوش خروش کی کمی بتایا جا رہا ہے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے کافی انتظار کے بعد جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ٹرن آؤٹ تین سے چار فی صد کی کمی دیکھی گئی جب کہ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کم ٹرن آؤٹ سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر کم رہا بھی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن نے عوام میں کوئی جوش پیدا نہیں کیا۔

مبصرین کے مطابق اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد ’انڈیا‘ کی جانب سے جو ایشوز اٹھائے جا رہے ہیں ان کا عوام پر اثر پڑ رہا ہے اور عوام کی اکثریت یہ کہتی ہوئی سنی جا رہی ہے کہ اسے مذہب کی سیاست پسند نہیں۔ وہ مہنگائی، بے روزگاری اور اس قسم کے دیگر مسائل کا حل چاہتی ہے۔

انتخابی ریلیوں میں پاکستان کا ذکر

یاد رہے کہ وزیرِ اعظم مودی اپنی ریلیوں میں مسلمانوں اور پاکستان کا نام بار بار لے رہے ہیں۔ انھوں نے پہلے اور دوسرے مرحلے میں کانگریس پر الزام لگایا کہ اگر اس کی حکومت آئی تو وہ عوام کی دولت ان سے لے کر مسلمانوں میں تقسیم کر دے گی۔

انھوں نے یہاں تک کہا کہ کانگریس کی نظر ہندو عورتوں کے منگل سوترپر ہے۔ وہ یہ بھی الزام لگاتے ہیں کہ کانگریس کی حکومت میں ملک کمزور تھا مگر اب وہ دشمن کے گھر میں گھس کر مارتا ہے۔

انھوں نے پہلے مرحلے میں جہاں یہ الزام لگایا تھا کہ کانگریس کے انتخابی منشور پر مسلم لیگ کی چھاپ ہے وہیں اب تیسرے مرحلے سے قبل انھوں نے پاکستان کے سابق وزیر چودھری فواد حسین کے ایک بیان کی وجہ سے کانگریس پر شدید تنقید کی ہے۔

بھارتی انتخابات: کیا جاننا ضروری ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:26 0:00

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کانگریس کی حکومت بنوانے کے لیے بے چین ہے۔

واضح رہے کہ فواد چوہدری نے ایک بیان میں راہل گاندھی کی تعریف اور بی جے پی پر تنقید کی تھی۔

نریندر مودی نے ہفتے کو بہار کے دربھنگہ میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے سابق مرکزی وزیر برائے ریلوے لالو پرساد یادو پر الزام لگایا کہ انھوں نے سونیا گاندھی کے ساتھ مل کر گودھرا ٹرین آتش زدگی معاملے کی تحقیقات کرنے والے کمیشن سے ایسی رپورٹ تیار کرائی تھی جس میں قصورواروں کو بچایا گیا اور ایودھیا سے لوٹ رہے ہندو یاتریوں کو قصوروار قرار دیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ اس حادثے میں 59 ہندو یاتری ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد پورے گجرات میں فساد پھوٹ پڑا تھا۔

اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور دیگر بی جے پی رہنما بھی اپنی تقریروں میں مسلمانوں کے خلاف بیانات دے رہے ہیں۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر کانگریس کی حکومت آئی تو ملک میں شرعی قانون لاگو ہو جائے گا اور ہندووں سے جزیہ وصول کیا جائے گا۔

مبصرین ان متنازع بیانات پر تنقید کرتے ہیں۔ ہندی اخبار ’دینک ہندوستان‘ کے ایڈیٹر اور سینئر تجزیہ کار پرتاپ سوم ونشی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو ایسی زبان کا استعمال کرنا زیب نہیں دیتا۔

کم ٹرن آؤٹ کے تذکرے

دیگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دراصل مودی حکومت کے پاس عوام کے سامنے رکھنے کے لیے کوئی قابل ذکر کام نہیں ہے اسی لیے مسلم مخالف بیانیہ تیار کیا جا رہا ہے۔ کیوں کہ بقول ان کے اس سے وہ ہندووں کے ووٹ حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔

پرتاپ سوم ونشی کے خیال میں ایسا لگتا ہے کہ پہلے اور دوسرے مرحلے میں کم ٹرن آؤٹ سے بی جے پی اور خاص طور پر وزیر اعظم مودی مایوس ہیں اس لیے وہ مذہبی بنیاد پر انتخاب لڑنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ ایک جمہوری ملک کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس الیکشن میں پونے دو کروڑ سے زائد نئے ووٹرز بنے ہیں اس کے باوجود ٹرن آؤٹ کم رہا جو کہ جمہوریت کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔

نریندر مودی، راہل گاندھی کو ’شہزادہ‘ کہہ کر پکارتے ہیں جس پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دراصل یہ اردو لفظ ہے اور اس کا اشارہ مسلمانوں کی طرف جاتا ہے ورنہ وہ راجکمار بھی کہہ سکتے تھے۔

ان کے شہزادہ کے الزام کے جواب میں پرینکا گاندھی نے نریندر مودی کو ایک ایسا شہنشاہ قرار دیا جو عوام کے مسائل سے نا واقف ہے۔

انھوں نے مودی کے اس الزام پر کہ کانگریس نے وراثت ٹیکس اس لیے ختم کیا تھا تاکہ راجیو گاندھی اپنی دولت بچا سکیں۔ اس پر پرینکا گاندھی نے کہا کہ ان کے والد کو وراثت میں صرف شہادت ملی تھی۔

مبصرین کے مطابق راہل گاندھی اور ملک ارجن کھڑگے وغیرہ نریندر مودی کو ملک کے اصل مسائل کی طرف لانے کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ نریندر مودی مسلم مخالف بیانیہ تیار کر رہے ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG