رسائی کے لنکس

دنیا بھر میں موجود  پاکستان کی  آؤٹ آف پریکٹس لیڈی  ڈاکٹرز اپنے پروفیشن میں واپس آرہی ہیں


ای ڈاکٹر پروگرام کی سرٹیفیکشن کی اسناد کی تقریب کی ایک جھلک
ای ڈاکٹر پروگرام کی سرٹیفیکشن کی اسناد کی تقریب کی ایک جھلک

پاکستان میں ہزاروں خواتین میڈیکل کی تعلیم مکمل کر کے ڈاکٹربنتی ہیں لیکن ان میں سے تقریباً نصف شادی یا بچوں کی پیدائش کے بعد یا اپنی سماجی اور خاندانی مجبوریوں کے باعث یا دوسرے ملکوں میں منتقل ہوجانے کے بعد اپنی میڈیکل پریکٹس چھوڑ دیتی ہیں اور پاکستان جیسے ملک میں جہاں ڈاکٹروں کی پہلے ہی کمی ہے ، مزیدکمی کی ایک بڑی وجہ بنتی ہیں اور ان پر حکومت اور خاندانوں کا لگایا ہوا تمام سرمایہ کسی کام نہیں آتا۔

شادی کے بعد اپنے پیا سنگ پردیس سد ھارنے والی اور اپنی میڈیکل پریکٹس کو ترک کرنے والی پاکستانی لیڈی ڈاکٹرز کی تعلیم پر خرچ کئے گئے اربوں ڈالر کے اس سرمائے کو کیسے واپس لایا جائے اور کیسے ان لیڈی ڈاکٹر ز کو دوبارہ مرکزی میڈیکل دھارے میں شامل کیا جائے ؟ یہ تھا وہ سوال جس پر توجہ دی تعلیم اور ہیلتھ سروسز فراہم کرنے والے بین الاقوامی سطح کے ایک آن لائن ادارے ایڈو کاسٹ نے جو ایک عرصے سے ٹیکنالوجی کی مدد سے ہیلتھ کئیر ، مہارتیں بہتر بنانے ، سینی ٹیشن ، نیوٹریشن اور فوڈ سیکیورٹی کے شعبے میں بہتری لا کر عام آدمی کی زندگی بہتر بنانے کے لئے کوشاں ہے ۔

اس ادار ے کے سربراہ اور سی ای او عبد اللہ بٹ نے وی او اے کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ان کے ادارے نے 2017 میں ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز اور گریجوایٹ ایسو سی ایشن آف نارتھ امریکہ کے ساتھ مل کر پاکستان اور دنیا بھر میں موجود ان ہزاروں پاکستانی لیڈی ڈاکٹرز کے لئے جو شادی کے بعد یا اپنی گھریلو ، سماجی اور خاندانی مجبوریوں کے باعث اپنے شعبے کو چھوڑ چکی تھیں آن لائن میڈیکل ریفریشر کورسز اور تربیت دینے کا ایک پراجیکٹ 'ای ڈاکٹر' کے نام سے شروع کیا اور انہیں اپنے ادھورے خوابوں کی تکمیل کا ایک موقع فراہم کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ای ڈاکٹر پلیٹ فارم نے ان آؤٹ آف پریکٹس خواتین ڈاکٹروں کو زندگی میں ایک نئی امید دی کہ انہوں نے کئی سال قبل جو تعلیم حاصل کی اور جو طبی ہنر سیکھے تھے وہ اب بھی ان کے ذریعے انسانیت کی خدمت کر سکتی ہیں۔

عبداللہ بٹ فاونڈر اور سی ای او ایڈوکاسٹ
عبداللہ بٹ فاونڈر اور سی ای او ایڈوکاسٹ

عبد اللہ بٹ نے بتایا کہ ان ای لیڈی ڈاکٹرز کی افادیت میں کویڈ 19 کے دوران اس وقت ایک دم بہت زیادہ اضافہ ہوا جب سندھ حکومت کو کوویڈ سے متاثرہ لاکھوں لوگوں کو ان کے گھروں میں دیکھ بھال اور علاج کے لئے ٹیلی ہیلتھ کی ضرورت پیش آئی ۔ اور اس نے ان ای ڈاکٹرز کی مدد سے کو ویڈ کےعلاج اور دیکھ بھال کا ایک ٹیلی ہیلتھ پروگرام شروع کیا ۔ اس مقصد کے لئے پہلے ان ای ڈاکٹرز کو جو 2 سال تک ای ڈاکٹر پلیٹ فارم سے رضاکارانہ طور پر ہیلتھ سروسز فراہم کر کے ای ہیلتھ میں ماہر ہو چکی تھیں امریکہ کی ممتاز عالمی میڈیکل یونیورسٹی ،سٹینفرڈ سینڑ فار میڈیسن نے کوویڈ کئیر کی تربیت اور سرٹیفکیٹ فراہم کئےجس کےبعد انہوں نےاپنی آن لائن کوویڈ سروسز کا آغاز صوبہ سندھ سے کیا ۔

عبداللہ بٹ نے بتایا کہ صوبہ سندھ میں انجام پانے والے اس پراجیکٹ میں سولہ ملکوں سے 450 پاکستانی ڈاکٹرزنے حصہ لیا جو پورے صوبے میں اپریل 2020 سے اب تک گھروں میں الگ تھلگ کئے گئے کوویڈ کے چار لاکھ سے زیادہ مریضوں کو ٹیلی ہیلتھ کے ذریعے ان کےگھروں میں مفت دیکھ بھال اور آن لائن مشاورت فراہم کر چکی ہیں۔ جبکہ اسی دوران انہوں نے یمن کے جنگ زدہ علاقوں میں ٹیکنالوجیکل مہارتوں اور ٹیلی ہیلتھ کے استعمال سے ان مقامی این جی اوز کے ساتھ مل کر مہینوں تک ماؤں اور ان کے نوزائیدہ بچوں کو آن لائن مشاورت فراہم کی ،ذہنی صحت کے آن لائن سیشن کئے ، موبائل کلینکس کا اہتمام کیا ، اور غذائیت اور کوویڈ 19 کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔

ای ڈاکٹرتقریب تقسیم اسناد بیچ 2019 بائیں سے دائیں ، مسٹر عبداللہ ، سی ای او ایڈوکاسٹ پی وی ٹی، پروفیسر ڈاکٹر زرناز وحید سابق پرو وائس چانسلر اور سابق چئیر پرسن ای ڈاکٹر پراجیکٹ ڈاو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، ڈاکٹر سعید قریشی ، وائس چانسلرڈاو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز ، ڈاکٹر جہاں آرا ہیڈ گائنی ڈپارٹمنٹ اور سر براہ ای ۔ ڈاکٹر ،ڈاکٹر ارشد بیگ ، ہیڈ فیملی میڈیسن ، ڈی یو ایچ ایس فوٹو ایڈو کاسٹ
ای ڈاکٹرتقریب تقسیم اسناد بیچ 2019 بائیں سے دائیں ، مسٹر عبداللہ ، سی ای او ایڈوکاسٹ پی وی ٹی، پروفیسر ڈاکٹر زرناز وحید سابق پرو وائس چانسلر اور سابق چئیر پرسن ای ڈاکٹر پراجیکٹ ڈاو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، ڈاکٹر سعید قریشی ، وائس چانسلرڈاو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز ، ڈاکٹر جہاں آرا ہیڈ گائنی ڈپارٹمنٹ اور سر براہ ای ۔ ڈاکٹر ،ڈاکٹر ارشد بیگ ، ہیڈ فیملی میڈیسن ، ڈی یو ایچ ایس فوٹو ایڈو کاسٹ

ڈاو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے ای ڈاکٹر پروگرام کی سربراہ اور گائنی ڈپارٹمنٹ کی ہیڈ پروفیسر ڈاکٹر جہاں آرا حسن نے وی او اے کو ایک انٹر ویو میں بتایا کہ ڈاو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز اور انٹر نیشنل ٹیلی ہیلتھ پلیٹ فارم ایڈو کاسٹ کے ای ڈاکٹر کے اس پراجیکٹ کا مقصد یہ تھا کہ ان تمام خواتین ڈاکٹرز کو جو شادی کے بعد پردیس منتقل ہونے یا دوسری گھریلو یا سماجی وجوہات کی وجہ سے اپنا پروفیشن چھوڑ دیتی ہیں اور صحت کے شعبے کے لئے ایک بڑے مالی نقصان کی وجہ بنتی ہیں انہیں طبی پروفیشنل ورک فورس میں واپس لایا جائے ۔

ڈاکٹر جہاں آرا ہیڈ آف گائنی ڈپارٹمنٹ اور ای ڈاکٹر پروگرام ڈاو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، فوٹو ڈاو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز
ڈاکٹر جہاں آرا ہیڈ آف گائنی ڈپارٹمنٹ اور ای ڈاکٹر پروگرام ڈاو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، فوٹو ڈاو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز

انہوں نے کہا کہ ہر ڈاکٹر کی تعلیم اور ہاوس جاب پر سات اعشاریہ پانچ ملین روپے سے زیادہ کا سرمایہ خرچ ہوتا ہے اور اس وقت پاکستان اور دنیا بھر 25ہزار سے زیادہ ایسی پاکستانی لیڈی ڈاکٹرز موجود ہیں جو اپنی میڈیکل پریکٹس چھوڑ چکی ہیں ۔ اور اس کے نتیجے میں سرکاری شعبے اور ان کے والدین کواربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے ۔

انہوں نے بتایا کہ ای ڈاکٹر کے اس پراجیکٹ کےذریعے 2023 تک ہم پاکستان اور دنیا بھر کے 26 سے زیادہ ایسے ملکوں سے جہاں یہ لیڈی ڈاکٹرز شادی کے بعد منتقل ہو چکی ہیں 1200 لیڈی ڈاکٹرز کو میڈیکل پروفیشن میں واپس لا چکے ہیں ۔ اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ماڈل یہ ہے کہ ہم ان آوٹ آف ورک لیڈی ڈاکٹرز کو چھ ماہ کا ایک آن لائن فیملی میڈیسن پروگرام کا کورس کراتے ہیں جو ڈاو یونیورسٹی کے ممتاز پروفیسرز کے ریکارڈ شدہ لیکچرز کے ذریعے کرایا جاتا ہے جس دوران زیر تربیت لیڈی ڈاکٹرز سوالات پوچھ بھی سکتی ہیں۔اس کے بعد انہیں فارمیکولوجی اورنسخہ جات لکھنے کا تین ماہ کا آن لائن سرٹیفیکیشن کا کورس کرایا جاتا ہے جسے ای فارما کہتے ہیں ۔ ان دو پروگراموں کے بعد یہ آوٹ آف پریکٹس لیڈی ڈاکٹرز مریضوں کی براہ راست یا آن لائن خدمت کے لئے تیار ہوتی ہیں

ڈاکٹر جہاں آرا نے مزید بتایا کہ ان ای ڈاکٹرز کی اکثریت نے اب دوبارہ پریکٹس شروع کر دی ہے اور وہ یا تو اپنے گھروں میں ٹیلی ہیلتھ ایڈوائزرز کے طو ر پر کام کر رہی ہیں یا مختلف آن لائن پلیٹ فارمز کے لئے کام کررہی ہیں ۔ اور وہ مختلف سماجی بہبود کے ہیلتھ کیمپوں میں اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کر رہی ہیں۔

وی او اے نے ایڈو کاسٹ کے ای ڈاکٹر پلیٹ فارم سے تربیت یافتہ اور سند یافتہ کچھ ای ڈاکٹرز سے بھی گفتگو کی۔

ڈاکٹر علینہ علی کینیڈا میں مقیم ایک ای ڈاکٹر جو اس وقت ایک پریکٹسنگ فزیشن ہیں
ڈاکٹر علینہ علی کینیڈا میں مقیم ایک ای ڈاکٹر جو اس وقت ایک پریکٹسنگ فزیشن ہیں

کینیڈا میں ایڈو کاسٹ کے ای ڈاکٹر پراجیکٹ سے منسلک ایک پاکستانی پریکٹسنگ فزیشن ڈاکٹر علینہ علی نے بتایا کہ ان کی کہانی دوسری آوٹ آف پریکٹیس لیڈی ڈاکٹرز سے اس لئے مختلف ہے کہ انہوں نےشادی کے بعد دوسرے ملکوں میں منتقل ہونے کے بعد اپنے میڈیکل پروفیشن کو جاری رکھا ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سے گریجو ایشن اور ہاوس جاب کے بعد دوبئی منتقل ہوئیں اور وہاں لائسننس حاصل کرنے کے بعد اپنی میڈیکل پریکٹس کو جاری رکھا اور کینیڈا منتقل ہونے کے بعد میڈیکل لائسنس حاصل کرنے کے پراسس کے دوران انہوں نے سٹینفورڈ یونیورسٹی یوایس اے کی جانب سے کوویڈکی تشخیص اور علا ج کی تربیت کے بعد ای ڈاکٹر کے ٹیلی ہیلتھ پراجیکٹ کے ذریعے اپنے ملک کےمریضوں کا علاج جاری رکھا ۔

انہوں نے کہا کہ دیار غیر میں اپنے آبائی ملک کے مریضوں کی خدمت کا وہ واقعی ایک منفرد جذبہ ، ایک منفرد احساس اور ایک ایساتجربہ تھا جسے دنیا بھر میں ای ڈاکٹر پراجیکٹ سے وابستہ لیڈی ڈاکٹرز کبھی فراموش نہیں کر سکیں گی ۔
انہوں نے بتایا کہ وہ اس وقت کینیڈا میں ایک پریکٹسنگ فزیشن ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ معمر افراد کی گھر پر دیکھ بھال اور علاج کے ایک ای ڈاکٹر پروگرام میں بھر پور طریقے سے حصہ لے کر ایک ڈاکٹر کےطور پراپنی ذمہ داری نبھانے کا خواب پورا کررہی ہیں ۔

امریکہ میں مقیم ڈاکٹر صدف آصف نے وی او اے کو اپنی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی ڈاکٹر والدہ کی طرح ایک ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں لیکن میڈیکل میں ایڈمیشن سے قبل ان کی والدہ کا اور تھرڈ ائیر میں تھیں کہ ان کےوالد کا انتقال ہو گیا جس کے بعد ان کی شادی ہو گئی اور گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے ان کے میڈیکل کےسفر میں کئی سال کا بریک آگیا ۔

امریکہ میں مقیم ڈاکٹر صدف عمران
امریکہ میں مقیم ڈاکٹر صدف عمران

لیکن جب انہوں نے آخر کار میڈیکل کی تعلیم مکمل کی توان کی فیملی امریکہ منتقل ہو گئی اور گھر اور بچوں کی ذمہ داری کے باعث وہ USMLE نہ کر سکیں لیکن پبلک ہیلتھ میں ماسٹرز ضرور کر لیا ۔

انہوں نے بتایا یہ ای ڈاکٹر پراجیکٹ تھا جس نے ان کے خواب کی تکمیل کا ایک منفرد راستہ آن لائن فیملی میڈیکل سرٹیفکیشن کے ذریعے فراہم کیا جس کے بعد انہوں نے ٹیلی ہیلتھ کے ذریعے یہاں امریکہ میں رہ کر اپنے آبائی ملک پاکستان کی خدمت کا اپنا میڈیکل سفر دوبارہ شروع کیا۔

ڈاکٹر صدف نے بتایا کہ اس سفر میں اس وقت مزید تیزی آئی جب انہیں کوویڈ 19 کےدوران پاکستان کےصوبے سندھ میں کوویڈ کے مریضوں کے آن لائن علاج اور تشخیص کا موقع ملا اور وہ آخر کار اس ااحساس سے ہمکنار ہوئیں کہ انہوں نے اپنا اوراپنی والدہ کا ڈاکٹربننے کا خواب پورا کر دیا ہے۔

ڈاکٹرصدف نے بتایا کہ اس وقت وہ امریکہ کے ایک ہسپتال میں انفیکشن پریونشن پریکٹیشنر کی جاب کر رہی ہیں اور ساتھ ساتھ ای ڈاکٹر کے پراجیکٹس میں والنٹئیر کے طور پرکام کر رہی ہیں ۔

وی او اے سے گفتگو کرتے ہوئے 2000 میں پاکستان سےمیڈیکل ڈگری لینے والی اوراپنے چار بچوں اور شوہر کےساتھ متحدہ عرب امارات میں مقیم ڈاکٹر فائزہ ایاز خان اپنے میڈیکل پروفیشن سے 19 سال تک یکسر کٹی رہیں ۔انہوں نے بتایا کہ ایڈو کاسٹ کے ریفریشر کورسز کی مدد سے انہیں اپنے طبی علم کو اپ ڈیٹ کرنے اور اپنے میڈیکل پروفیشن میں واپس آنے کا موقع ملا ۔

، متحدہ عرب امارات میں مقیم ڈاکٹر فائزہ ایاز خان
، متحدہ عرب امارات میں مقیم ڈاکٹر فائزہ ایاز خان

انہوں نے بتایا کہ خاص طور پر کوویڈ 19 کےدوران دو سال تک صوبہ سندھ کے کوویڈ مریضوں کو آن لائن مفت علاج اور تشخیص کی فراہمی سے انہیں اپنی پاکستانی کمیونٹی کا قرض چکانے کا موقع ملا ۔

ان کا کہنا تھا کہ کووویڈ کے دوران دنیا بھر میں موجود مجھ جیسی آؤٹ آف پریکٹس لیڈی ڈاکٹرز نے ای پلیٹ فارم سےاپنے آبائی ملک کے کوویڈ سے متاثرہ لاکھوں مریضوں کی جس جذبے سے خدمت کی شاید یہ ان کی دعاوں کا اثر تھا کہ وہ سب جو یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھیں کہ وہ کبھی دوبارہ خود کو سفید گاؤن اور اسٹیتھسکوپ کے ساتھ ایک ڈاکٹر کے روپ میں دیکھ سکیں گی اب بہت کامیابی سے اپنے اس خواب کا سفر دوبارہ شروع کر چکی ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنے پروفیشن میں ای ہیلتھ کےذریعے واپسی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور اس وقت وہ ای ڈاکٹر کے معمر افراد کے پروگرام میں شامل ہیں جس کےتحت عمر رسیدہ افراد کو ان کے گھروں ہی میں مفت آن لائن علاج اور دیکھ بھال فراہم کی جارہی ہے۔

کراچی میں دس سال تک ایک پریکٹسنگ فزیشن رہنے کےبعد ڈاکٹر مہر افشاں نے اپنے خاندان کے ساتھ 16 سال دوبئی میں اپنے پروفیشن سے بالکل کٹ کر گزارے ۔نہوں نے وی او اے کو بتایا کہ جب وہ سولہ سال بعد پاکستان واپس آئیں تو ان کےلئے دوبارہ اپنی پریکٹس شروع کرنا آسان نہ تھا

دوبئی سے کراچی واپس ٓنے والی ڈاکٹر مہر افشاں
دوبئی سے کراچی واپس ٓنے والی ڈاکٹر مہر افشاں

ایسے میں انہوں نے ای ڈاکٹر کے آن لائن ریفریشر ٹریننگ پروگرام میں خود کو رجسٹر کرایا اور اپنے طبی علم کو اپ ڈیٹ کیا ۔ پھر کویڈ 19 کےدوران پورے صوبے سندھ میں کوویڈ کے مریضوں کی تشخیص اور علاج میں بھر پور حصہ لیا اور یوں انہیں اپنی پروفیشنل زندگی دوبارہ شروع کرنے کا موقع ملا ۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت وہ حسین لاکھانی ہسپتال اور ایک پولی کلینک میں جنرل پریکٹیشنر کے طور پر کام کررہی ہیں۔

ترکیہ کے شہر استنبول میں مقیم کراچی کی ڈاکٹر آصفہ اقبال نے ۔ وی او اے کو اپنی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ انہوں نے 2012 میں ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز سے گریجو ایشن کی تھی جس کے بعد ہاؤس جاب اور پریکٹس بھی شروع کی تھی لیکن پھر شادی اور مسلسل بچوں کی پیدائش اور شوہر کے ساتھ دوبئی ،آسٹریلیا اور بہت سے ملکوں میں سفر کے باعث ان کی پروفیشنل زندگی پر گھریلو زندگی حاوی رہی اور ان کے میڈیکل کیرئیر میں ایک گیپ آگیا ۔

استنبول ترکئہ میں مقیم ڈاکٹر آصفہ اقبال
استنبول ترکئہ میں مقیم ڈاکٹر آصفہ اقبال

لیکن 2018 میں جب انہوں نے ای ڈاکٹرز کے پہلے ریفریشر کورسز جوائن کر کے اپنی میڈیکل نالج کو اپ ڈیٹ کیا اور کوویڈ کی تشخیص اور علاج کی آن لائن تربیت اور سند حاصل کی تو انہیں اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ جب کوویڈ 19 کے دوران ترکیہ میں ان کے گھر والوں کو کوویڈ ہوا تو انہوں نے خود ان کے کوویڈ ٹسٹس کیے ان کا علاج کیااور انہیں دوسرے ڈاکٹروں کے پاس نہیں جانا پڑا۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے ترکیہ میں اپنے گھر میں بیْٹھ کر ای ڈاکٹر پلیٹ فارم سے پاکستان اور دنیا بھر میں کوویڈ کے مریضوں کاآن لائن علاج کیا ، جس کے بعدانہیں یہ احساس ہوا اور یہ اعتماد پیدا ہوا کہ وہ دوبارہ اپنی پریکٹس شروع کر سکتی ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اس وقت ترکیہ میں میڈیکل لائسنس لینے کی تیار کر رہی ہیں جس کے بعد وہ اپنی میڈیکل پریکٹس شروع کریں گی ۔

ڈاکٹر آصفہ اقبال نے مزید بتایا کہ انہوں نے اور تمام ای ڈاکٹرز نےیمن اور افغانستان جیسے جنگ زدہ علاقوں میں موبائل ہیلتھ کلینکس کے توسط سے مریضوں کو طبی مدد فراہم کی جب کہ پاکستان میں حالیہ سیلاب کے متاثرین کو بھی دنیا کے مختلف کونوں میں بیٹھ کر اپنی مشاورت اور علاج سے فائدہ پہنچایا۔

کراچی میں مقیم ڈاکٹر عدئیہ احمد نے بتایا کہ انہوں نے 2011 میں ایم بی بی ایس کیا اور ہاؤس جاب کے بعد شادی ہو گئی اور گھریلو مصروفیات کو جاب پر فوقیت دیتے ہوئے اپنے کیرئیر سے کچھ بریک لیا ۔ پھر 2018 میں ایڈو کاسٹ میں میڈیکل کا ریفریشر کورس اور فیملی میڈیسن کےسرٹیفکیٹ کورس کے بعد مجھے یہ اعتماد حاصل ہوا کہ میں دوبارہ اپنا کیرئیر شروع کر سکتی ہوں ۔

ڈاکٹر عدئیہ احمد
ڈاکٹر عدئیہ احمد

ان کا کہنا تھا کہ کوویڈ 19 کے دو برسوں میں پاکستان بھر کے کوویڈ مریضوں کی ای ڈاکٹر کےطور پر خدمت کے موقع اور ای ہیلتھ ٹریٹمنٹ کے تجربے کے باعث میں اپنے پروفیشن میں پوری طرح واپس آچکی ہوں اور اس وقت ایک معروف ادارے میں کل وقتی جنرل پریکٹیشنر کےطور پر کام کررہی ہوں۔

نیو یارک میں مقیم ڈاکٹر افشاں ناز امرے نے 20 سال قبل پاکستان سے میڈیکل گریجوایشن کی تھی اور شادی کے بعد امریکہ منتقل ہو جانے کے بعد اپنے گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کے باعث ایک ڈاکٹر کے طور پر اپنا طبی پروفیشن جاری نہ رکھ سکیں لیکن مختلف اسپتالوں اور طبی مراکز میں ریسرچ ورک اور کمیونٹی کی امدادی سر گرمیوں میں مشغول رہیں۔

وہ اس وقت سٹی یونیورسٹی آف نیو یارک میں ایک ایڈ جنکٹ فیکلٹی کے طور پر کام کرتی ہیں

وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایڈو کاسٹ کے ریفریشر کورس نے انہیں ٹیلی میڈیسن کے توسط سے اپنے ملک کی دوبارہ خدمت کا موقع فراہم کیا اور خاص طور پر کوویڈ کی وبا کے دوران اس آن لائن پلیٹ فارم سے پاکستان کے کوویڈ کے مریضوں کی بے پناہ خدمت کر کے دکھی انسانیت کی خدمت کا ان کا ادھورا سپنا پورا ہوا۔

نیو یارک میں مقیم ڈاکٹر افشاں ناز امرے
نیو یارک میں مقیم ڈاکٹر افشاں ناز امرے

ا نہوں نےمزید کہا کہ ایجو کاسٹ کے پلیٹ فارم سے ای ڈاکٹر کے طور پروہ پاکستان کے ضرورتمند مریضوں کی رضاکارانہ خدمت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور اسے آئندہ بھی جاری رکھیں گی۔

ڈاکٹر افشاں ناز ، عدئیہ احمد ، فائزہ ایاز خان ، صدف آصف ، اور ڈاکٹر مہر افشاں جیسی پاکستان کی ہزاروں لیڈی ڈاکٹرز جواپنے گھریلو اور سماجی حالات کی وجہ سے اپنے میڈیکل پروفیشن سے کٹ کر اپنے نا تمام خوابوں کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں انہیں ایڈو کاسٹ اور ڈاؤ یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کا تشکیل کردہ ای ڈاکٹر پلیٹ فارم نہ صرف دوبارہ اپنے پروفیشن میں لانے اور ڈاکٹر کے طور پر اپنے ملک و قوم کی خدمت کا خواب پورا کرنےکا بلکہ اربوں ڈالر کے اس سرمائے کی واپسی کا بھی ا یک انتہائی اہم ذریعہ بن رہا ہےجو پاکستان کی حکومت اور ان ڈاکٹرز کےوالدین نے ان پر خرچ کیا تھا۔

ڈاوؤیونیورسٹی اور ایڈو کاسٹ کےای ڈاکٹر پروگرام کے مستقبل پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر جہاں آرا نے بتایا کہ یونیورسٹی اس پراجیکٹ کو عالمی سطح پر توسیع دینے کا منصوبہ بنا رہی ہے کیوں کہ بہت سے ملکوں کی میڈیکل یونیورسٹیز نے ای ڈاکٹر پروگرام میں شرکت کے لئے رابطہ کیا ہے ۔

ان کاکہنا تھا کہ اس پروگرام کو اسٹینفرڈ یونیورسٹی کےمیڈیسن سنٹر اور اسلامی ترقیاتی بنک ، جدہ کا کافی تعاون حاصل ہے۔ جب کہ ڈاؤ یونیورسٹی کی سینئیر فیکلٹی ان ای ڈاکٹرز کو ہر ممکن مدد فراہم کرتی ہے ۔

عبد اللہ بٹ اور ڈاکٹر جہاں آرا کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں مقیم ہزاروں آؤٹ آف پریکٹس اور اپنے پروفیشن سےکٹ جانے والی پاکستانی خواتین ڈاکٹرز کوان کے پروفیشن میں واپس لانے کا ایْڈو کاسٹ اور ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کا مشن جاری رہے گا اور انہوں نے ایسی تمام ڈاکٹرز کو پیغام دیا ہے کہ وہ ایڈو کاسٹ یا ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی ویب سائٹ پر خود کو اس پروگرام میں رجسٹر کرا کے اس نادر موقعے سے استفادہ کریں اور میڈیکل پروفیشن کے اس خواب کی تکمیل کریں جسے وہ شادی کے بعد اپنے گھر اور بچوں کی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئےشرمندہ تعبیر نہیں کر سکی تھیں۔

XS
SM
MD
LG