رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں لوک سبھا انتخابات: سیاسی جلسوں میں پاکستان کا ذکر کیوں؟


  • کشمیر کی علاقائی جماعتیں انتخابی جلسوں میں پاکستان سے مذاکرات کی بحالی پر زور دے رہی ہیں۔
  • امن کی بحالی کی کنجی بھارت اور پاکستان میں سے صرف ایک نہیں بلکہ دونوں ملکوں کے پاس ہے، محبوبہ مفتی
  • پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی بحالی جموں و کشمیر میں دائمی امن کے قیام کے لیے ناگزیر ہے، سابق وزیرِ اعلیٰ فاروق عبداللہ
  • فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی پاکستان بھگت ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں، رہنما بی جے پی
  • انتخابی جلسوں میں پاکستان کا ذکر ووٹرز کے جذبات ابھار کر ان کی دکھتی رگ کو چھوکر ان کے ووٹ بٹورنے کی کوشش ہے، تجزیہ کار
  • علاقائی جماعتوں کے لیے انتخابی مہم کے دوران پاکستان اور دفعہ 370 کو ایشو بنانے کی گنجائش ہے، ڈاکٹر نور احمد بابا

سرینگر _ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں لوک سبھا کے انتخابات کے لیے مہم عروج پر ہے اور سیاسی جماعتیں انتخابی جلسوں میں عوام کے بنیادی مسائل اجاگر کرنے کے بجائے حساس اور جذباتی مسائل پر زور دے رہی ہیں۔

علاقائی جماعتیں بالخصوص نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی انتخابی مہم کے دوران پاکستان کا نام زور و شور سے لیا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کشمیر کی علاقائی جماعتوں کی طرف سے انتخابی مہم کے دوراں پاکستان اور دفعہ 370 کو ایشو بنانے کی گنجائش موجود ہے۔

نیشنل کانفرنس کے صدر اور سابق وزیرِ اعلیٰ فاروق عبداللہ انتخابی جلسوں میں اپنی تقریروں کے دوران بار بار پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی بحالی کو جموں و کشمیر میں دائمی امن کے قیام کے لیے ناگزیر قرار دے رہے ہیں۔

انہوں نے ایک حالیہ انتخابی ریلی کے دوران طفیل ہوشیار پوری کے مشہور حربی نغمے 'اے مردِ مجاہد جاگ ذرا' کا یہ شعر 'اے مردِ مجاہد جاگ ذرا، اب وقتِ شہادت ہے آیا' بلند آواز میں پڑھ کر سب کو حیرت میں ڈال دیا۔

ناقدین نے اسے ان کی طرف سے شرکائے جلسہ کے ساتھ ساتھ عام کشمیری مسلمانوں کے جذبات کو ابھارنے کی ایک کوشش قرار دیا ہے۔

یاد رہے کہ 1958 میں بنی 'چنگیز خان' نامی فلم کے لیے عنایت حسین بھٹی اور ساتھیوں کا گایا یہ نغمہ پاکستان کا ایک قومی دفاعی نغمہ ہے جو ماضی میں بالخصوص 1965 اور 1971 کی بھارت۔پاکستان جنگوں کے دوران کشمیر میں پاکستان نواز حلقوں میں خاصا مقبول بن گیا تھا۔

فاروق عبداللہ کے بیٹے اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ بھی اپنی تقریروں میں پاکستان کا ذکر کر رہے ہیں لیکن ان کا انداز کچھ مختلف ہے۔

عمر عبداللہ بارہمولہ کے انتخابی حلقے سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اپنے انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ "میں نے اس سے پہلے انتخابات میں پاکستان کے جنرلوں کے خلاف لڑا اور کامیابی حاصل کی۔ اس بار الیکشن میں میری مخالفت دلّی کی طاقت کے خلاف ہے جسے ہرا کر رہیں گے۔

سابق وزیرِ اعلیٰ اور پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی بھی پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کی وکالت کر رہی ہیں۔ ان کے بقول جموں و کشمیر میں حقیقی معنوں میں امن کی بحالی کی کنجی بھارت اور پاکستان میں سے صرف ایک نہیں بلکہ دونوں ملکوں کے پاس ہے۔

'فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی پاکستان بھگت ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں'

گزشتہ دنوں ایک انتخابی جلسے سے خطاب میں محبوبہ مفتی نے کہا کہ پاکستان کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کی بحالی ہی کشمیر میں خون خرابا روک سکتی ہے۔

نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے رہنماؤں کو انتخابی مہم کے دوران بار بار پاکستان کا ذکر کرنے اور مذاکرات کی بحالی پر حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔

بی جے پی کے جموں و کشمیر کے پارٹی انچارج ترون چھگ نے اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی پاکستان بھگت ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں اور اس طرح اپنے آپ کو عیاں کر رہے ہیں۔

ترون چھگ نے کہا "عبداللہ خاندان کے دل و دماغ پاکستان میں بستے ہیں اور باپ بیٹا جموں و کشمیر میں جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں دراصل پاکستان فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے ہیں۔"

چھگ نے عوام سے اپیل کی کہ وہ انتخابات میں مذکورہ دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کے خلاف ووٹ دے کر انہیں سبق سکھا دیں۔

واضح رہے کہ بھارت کی ایوانِ زیریں لوک سبھا کے انتخابات سات مراحل میں ہو رہے ہیں جس کے تین مراحل مکمل اور چوتھا مرحلہ 13 مئی کو ہو گا۔

مسلم اکثریتی وادی کشمیر اور پیر پنجال خطے کی تین پارلیمانی نشستوں کے لیے بی جے پی نے اپنا کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا۔ لیکن بی جے پی تینوں حلقوں میں جاری انتخابی مہم میں سرگرم نظر آرہی ہے۔

ہندو اکثریتی جموں کے ادھمپور اور جموں پارلیمانی حلقوں میں انتخابات کے ابتدائی دو مرحلوں میں بی جے پی نے پاکستانی کشمیر اور بالا کوٹ میں کی گئی مبینہ سرجیکل اسٹرائکس کو بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا اور دفعہ 370 کی منسوخی کے 'فوائد' کو اجاگر کیا ہے۔

تجزیہ کار ڈاکٹر ارون کمار کہتے ہیں کشمیری لیڈروں کی طرف سے الیکشن میں پاکستان کا نام لے کر ووٹروں کو لبھانے کی کوشش کرنا کوئی نئی بات نہیں اور اس مرتبہ بھی وہ ووٹرز کے جذبات ابھار کر ان کی دکھتی رگ کو چھوکر ان کے ووٹ بٹورنا چاہتے ہیں۔

ان کے بقول حالیہ برسوں بالخصوص اگست 2019 کے بعد جموں و کشمیر کے زمینی حالات بہت بدل گئے ہیں جس کا ان رہنماؤں کو ادراک ہونا چاہیے۔

کیا آرٹیکل 370 کی منسوخی سے جمّوں و کشمیر میں خوش حالی آئی ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:57 0:00

یونیورسٹی آف کشمیر کے شعبہء سیاسیات کے سابق پروفیسر اور تجزیہ کار ڈاکٹر نور احمد بابا کہتے ہیں علاقائی جماعتوں کے لیے انتخابی مہم کے دوران پاکستان اور دفعہ 370 کو ایشو بنانے کی گنجائش ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر میں گزشتہ چند برس کے دوران جو صورتِ حال پیدا ہوئی ہے اس میں لوگوں کے لیے اس طرح کے جملے پُرکشش ہیں اور فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسے رہنماؤں کا لوگوں کی نبض پر ہاتھ ہے۔

پروفیسر بابا نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر میں بڑے سیاسی مسائل کو کسی انتخابی عمل کے دوران اور کسی دوسری صورت میں اٹھانے کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ اگر فاروق عبد اللہ یا محبوبہ مفتی ماضی میں اپنی اپنی جماعتوں کی ناکامیوں کے باوجود یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ بات چیت ہونی چاہیے۔ تو وہ غلط نہیں کہہ رہے اور عام ووٹر کو اس حقیقت کا ادراک ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG