رسائی کے لنکس

میانمار میں ہتک عزت کے الزام میں دو صحافیوں کو سزا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’رپورٹر وِد آؤٹ بارڈرز‘ نے آزادیٔ صحافت میں میانمار کو 180 ملکوں میں سے 144واں نمبر دیا ہے۔

میانمار نے دو صحافیوں کو ایک مضمون لکھنے پر ہتکِ عزت کے جرم میں دو ماہ قید کی سزا سنائی ہے۔ اس مضمون میں مبینہ طور پر فوج کے اثرورسوخ والی پارلیمان کے ایک رکن کے بیان کا ایک ناگوار اقتباس بھی شامل تھا۔

’میانمار پوسٹ‘ کے مدیرِ اعلیٰ اور ایک رپورٹر کی سزا کے تازہ واقعے نے میانمار میں آزادی صحافت کی خراب ہوتی ہوئی صورتحال کے بارے میں خدشات کو تقویت دی ہے۔ میانمار کئی دہائیوں سے سخت فوجی آمریت کے زیرِ تسلط رہا ہے اور اس اثر سے نکلنے کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔

گزشتہ برس لکھے جانے والے جس مضمون پر سزا دی گئی اس میں ایک رکنِ پارلیمان میجر تھائن زا کا یہ بیان شامل تھا جس میں اشارہ دیا گیا تھا کہ پارلیمان کے فوجی اراکین کی تعلیمی سطح کم ہے۔ میجر تھائن زا نے تردید کی ہے کہ انہوں نے ایسا کوئی بیان دیا تھا۔

2011ء میں براہِ راست فوجی حکومت کے خاتمے کے بعد میانمار نے آزادیٔ صحافت کو بہتر بنانے کے لیے متعدد اقدامات کیے جن میں ملک کے اخبارات کی براہِ راست سنسرشپ کا خاتمہ اور چند صحافیوں کی رہائی شامل ہیں۔

تاہم صحافیوں کو اب بھی گرفتاریوں، دھمکیوں اور سنسرشپ کا سامنا ہے۔ کئی صحافیوں کو ایسے معاملات پر خبریں شائع کرنے پر جیل بھیجا جا چکا ہے جو حکومت کے خیال میں حساس معاملات ہیں اور جن پر خبریں شائع نہیں کی جا سکتی۔

صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’رپورٹر وِدآؤٹ بارڈرز‘ نے آزادی صحافت میں میانمار کو 180 ملکوں میں سے 144واں نمبر دیا ہے۔

صحافیوں کے علاوہ بھی عوام کو آزادی اظہار پر پابندی کا سامنا ہے۔

اس ہفتے کے اوائل میں تین افراد کو ایک اشتہار پر ہیڈفون پہنے بدھا کی رنگین تصویر شائع کرنے پر ڈھائی سال قید کی سزا سنائی گئی۔ جج کا کہنا تھا کہ یہ تصویر بدھ مت کی تذلیل کرتی ہے۔

XS
SM
MD
LG