رسائی کے لنکس

بھارت: سابق گینگسٹر اور سیاست دان مختار انصاری کی موت پر تنازع


مختار انصاری کے بیٹے نے اُنہیں زہر دینے کا الزام عائد کیا ہے۔

امن و امان کی صورتِ حال کے پیشِ نظر پولیس نے جمعے کو فیروز آباد اور کاسگنج میں فلیگ مارچ کیا۔

مختلف سیاسی جماعتوں نے مختار انصاری کی وفات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

بھارت کی ریاست اترپردیش کے سابق گینگسٹر اور سیاست داں مختار انصاری کی موت پر ایک تنازع پیدا ہو گیا ہے۔ ان کے بیٹے نے انہیں زہر دینے کا الزام لگایا ہے جب کہ متعدد سیاست دانوں نے ان کی موت کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

گینگسٹر سے سیاسی رہنما بننے والے مختار انصاری جمعرات کی شام اتر پردیش کی جیل میں وفات پا گئے تھے۔ انہیں اسی روز قے کی شکایات کے پیشِ نظر مقامی اسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

امن و امان کے خدشات کے پیشِ نظر پولیس نے جمعے کو فیروز آباد اور کاسگنج میں فلیگ مارچ کیا۔ تمام اضلاع میں سیکیورٹی انتظامات سخت کر دیے گئے ہیں۔ باندہ، مؤ، غازی پور اور وارانسی میں اضافی فورس تعینات کر دی گئی ہے۔

مختار انصاری کے بیٹے عمر انصاری نے ان کی موت کے فوراً بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں سلو پوائزن دیا گیا اور وہ لوگ اس کی تحقیقات کے لیے عدالت جائیں گے۔

ایک روز قبل مختار انصاری سے ملنے کے بعد ان کے بڑے بھائی اور رکن پارلیمان افضال انصاری نے بھی ان کو زہر دیے جانے کا دعویٰ کیا تھا۔

جیل انتظامیہ نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پوسٹ مارٹم سے ہی ان کی موت کی وجہ معلوم ہو سکے گی۔ جب کہ حکومت نے ان کی موت کی مجسٹریٹی تحقیقات کا حکم دیا ہے جو تین رُکنی کمیٹی کرے گی۔

ساٹھ سالہ مختار انصاری 2005 سے پنجاب اور اترپردیش کی جیل میں تھے۔ ان پر 60 سے زائد مقدمات ہیں جن میں سے کئی میں انہیں سزائیں سنائی جا چکی تھیں۔ جمعرات کی رات ان کو پیٹ میں درد اور قے کی شکایت پر اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا جہاں کچھ دیر کے بعد دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہو گیا۔

ایک روز قبل بھی پیٹ میں درد کی شکایت پر انہیں اسپتال میں داخل کیا گیا تھا مگر 14 گھنٹے کے علاج کے بعد انہیں واپس جیل بھیج دیا گیا تھا۔

اتر پردیش کے مؤ شہر سے پانچ بار رکن اسمبلی رہے مختار انصاری نے گزشتہ ہفتے بارہ بنکی کی عدالت میں ایک درخواست داخل کرکے کہا تھا کہ ان کو کھانے میں زہر دیا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 19 مارچ کو کھانا کھانے کے بعد ان کے اعصاب اور اعضا میں درد ہونے لگا تھا۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔

اترپردیش کے سابق وزیرِ اعلیٰ اور سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے ریاست میں نظم و نسق کی صورتِ حال پر سوال اٹھاتے ہوئے سپریم کورٹ کی نگرانی میں مختار انصاری کی موت کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

انھوں نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ جو حکومت لوگوں کی جان نہ بچا سکے اسے اقتدار میں رہنے کا حق نہیں ہے۔

سابق وزیرِ اعلیٰ اور بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کی صدر مایاوتی نے بھی اعلیٰ سطحی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور ایکس پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ مختار انصاری کے اہلِ خانہ کے الزام اور اندیشوں کے پیش نظر ضروری ہو جاتا ہے کہ سچ کا پتہ لگانے کے لیے اعلیٰ سطحی تحقیقات کی جائے۔

’آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین‘ (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اور رکنِ پارلیمان اسد الدین اویسی نے موت کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ غازی پور کے عوام نے اپنا چہیتا بیٹا اور بھائی کھو دیا۔

’راشٹریہ جنتا دل‘ (آر جے ڈی) کے رہنما اور بہار کے سابق نائب وزیرِ اعلیٰ تیجسوی یادو نے ان کی موت پر شک و شبہے کا اظہار کرتے ہوئے آئینی اداروں سے از خود کارروائی کرنے کی اپیل کی۔

کانگریس پارٹی کے ترجمان سریندر راجپوت نے کہا کہ مختار انصاری کی موت نے اترپردیش کی حکومت پر سوال اٹھا دیا ہے۔ دیگر سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں نے بھی مختار انصاری کی موت کی حقیقی وجوہ کا پتا لگانے کے لیے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) کے رہنما ہری ساہنی نے کہا کہ ان کی موت بیماریوں کی وجہ سے ہوئی ہے۔ اب اس بات کو بڑا بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ ملزم کے خلاف متعدد مقدمات تھے اور اب جب کہ دل کا دورہ پڑنے سے ان کی موت ہو گئی تو اس پر تشویش ظاہر کرنے کا کوئی جواز نہیں۔

اترپردیش حکومت میں وزیر اور نشاد پارٹی کے صدر سنجے نشاد نے کہا کہ جو پیدا ہوا ہے اسے ایک دن مرنا ہے۔ لوگوں کو سائنس پر یقین رکھنا چاہیے۔ فرانزک جانچ سے ہی حقیقت سامنے آئے گی۔

مختار انصاری کون تھے؟

مختار انصاری آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے سابق صدر سرکردہ مجاہد آزادی، معروف معالج اور جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے چانسلر ڈاکٹر مختار احمد انصاری کے پوتے تھے۔ جامعہ ملیہ کا شاندار آڈیٹوریم اور دریا گنج دہلی میں ایک روڈ مختار انصاری کے نام پر ہے۔

ان کا ننھیال بھی باعزت خاندانوں میں شمار ہوتا ہے۔ بریگیڈیئر عثمان جنھیں ’نوشہرہ کا شیر‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے وہ ان کے نانا تھے۔ انھیں فوج میں اعلیٰ شجاعت کے لیے ’مہاویر چکر ایوارڈ‘ دیا گیا تھا۔

مختار انصاری 1963 میں غازی پور میں پیدا ہوئے۔ بتایا جاتا ہے کہ 15 سال کی عمر میں ہی وہ جرائم کی دنیا میں داخل ہو گئے تھے۔ ان پر جبریہ وصولی اور قتل کے کئی مقدمات قائم ہوئے تھے۔

جرائم کی دنیا میں سرگرم ہونے کے باوجود غریب عوام میں وہ بہت مقبول تھے۔ اترپردیش کی سابق وزیرِ اعلیٰ مایاوتی نے ایک بار ’رابن ہڈ‘ کہہ کر ان کی تعریف کی تھی۔

اسی دوران وہ سیاست میں داخل ہوئے۔ وہ مؤ کے اسمبلی حلقے سے کامیاب ہوئے اور ’قومی ایکتا دل‘ نامی سیاسی جماعت بنائی۔ وہ 1996 سے 2022 تک مؤ کے اسمبلی حلقے سے پانچ بار کامیاب ہوئے۔ دو بار بی ایس پی کے ٹکٹ پر، دو بار آزاد اور ایک بار قومی ایکتا دل کے امیدوار کی حیثیت سے۔

انھوں نے 2022 میں اپنے بڑے بیٹے عباس انصاری کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ وہ 2022 میں اسی حلقے سے ’سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی‘ کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے۔

ریاستی پولیس نے عباس انصاری کو مجرمانہ سرگرمیوں کے الزام میں گرفتار کیا اور ان پر گینگسٹر ایکٹ کے تحت مقدمہ قائم کیا۔ وہ اس وقت مالی بدعنوانی کے ایک معاملے میں کاسگنج کی جیل میں ہیں۔

مختار انصاری کے بڑے بھائی افضال انصاری غای پور حلقے سے بی ایس پی کے رکن پارلیمان ہیں۔ ان کے خلاف بھی گینگسٹر ایکٹ کے تحت کارروائی ہوئی تھی اور ایم پی ایم ایل اے کورٹ نے ان کو مجرم قرار دیا تھا جس کی وجہ سے ان کی پارلیمان کی رکنیت منسوخ ہو گئی تھی۔ لیکن سپریم کورٹ نے گزشتہ سال دسمبر میں ان کی سزا معطل کر دی تھی جس کی وجہ سے ان کی رکنیت بحال ہو گئی۔

مشرقی یو پی کی سیاست پر کیا اثر پڑے گا؟

مختار انصاری کے انتقال کے بعد سیاسی و صحافتی حلقوں میں یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ کیا اس واقعے کا کوئی اثر مشرقی اترپردیش کے انتخابات پر پڑے گا۔

دراصل مختار انصاری کا خاندان مشرقی اترپردیش میں ایک بااثر اور طاقت ور سیاسی خاندان کی حیثیت سے بھی معروف ہے۔ مؤ اور غازی پور اضلاع کو انصاری خاندان کا سیاسی گڑھ کہا جاتا ہے۔ اس علاقے سے وہ اور ان کے رشتے دار ہی انتخابات میں کامیاب ہوتے آئے ہیں۔

مختار انصاری کی مشکوک موت کے موقع پر لوگوں کو گینگسٹر سے سیاست داں بنے الہ آباد کے عتیق احمد اور سیوان بہار کے شہاب الدین کی یاد آگئی۔ اخبارات میں ان کے بارے میں اسٹوریز شائع ہو رہی ہیں۔

سوشل میڈیا پر لوگ یہ کہتے ہوئے سنے جا رہے ہیں کہ گینگسٹر سے سیاست داں بنے مذکورہ تینوں افراد کی موت سے ایک دور کا خاتمہ ہو گیا۔

مئی 2021 میں دہلی کے ایک اسپتال میں علاج کے دوران شہاب الدین کا انتقال ہوا تھا۔ وہ سیوان سے رکن پارلیمان تھے۔ جب کہ عتیق احمد کو گزشتہ سال پریاگ راج (الہ آباد) کے میڈیکل کالج کے احاطے میں پولیس حراست میں گولی مار کر ہلاک کیاگیا تھا۔ وہ رکن اسمبلی اور رکن پارلیمان رہے ہیں۔

مختار انصاری اور افضال انصاری پر 2005 میں بی جے پی کے ایک رکن اسمبلی کرشنانند رائے کے قتل اور 1997 میں وشو ہندو پریشد کے ایک رہنما نند کشور رونگٹا کے اغوا اور قتل کا الزام ہے۔

کرشنا نند رائے کی بیوہ الکا نند رائے نے مختار انصاری کی موت پر خوشی ظاہر کی اور کہا کہ اب جا کر انصاف ہوا ہے اور یہ کہ آج کا دن ان کے لیے ہولی کا دن ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG