رسائی کے لنکس

شمالی وزیرستان: نامعلوم حملہ آوروں کی کارروائی میں لڑکیوں کا ایک اور اسکول تباہ


 عافیہ گرلز اسلامک اسکول کے مالک کا کہنا ہے کہ اسکول کے بیش تر حصے تباہ ہو چکے ہیں۔ (فوٹو: وی او اے)
عافیہ گرلز اسلامک اسکول کے مالک کا کہنا ہے کہ اسکول کے بیش تر حصے تباہ ہو چکے ہیں۔ (فوٹو: وی او اے)
  • شمالی وزیرستان میں حالیہ مہینوں کے دوران اسکول جلانے اور تباہ کرنے کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔
  • تباہ ہونے والے اسکول کے پرنسپل کا کہنا ہے قریبی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کوئی سرکاری یا نجی اسکول نہیں ہے۔
  • سرکاری اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں 2020 سے 2022 کے درمیان 776 اسکول غیر فعال یا مکمل طور پر بند ہو گئے ہیں۔

پشاور — افغانستان سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں نامعلوم عسکریت پسندوں نے لڑکیوں کے ایک اور اسکول کو دھماکہ خیز مواد سے تباہ کر دیا ہے۔

شمالی وزیرستان کے پولیس عہدے دار نے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب لڑکیوں کے نجی اسکول کو بارودی مواد سے تباہ کرنے کے واقعے کی تصدیق کردی ہے۔

جمعے کو جاری کردہ بیان میں ضلعی پولیس افسر روخان زیب کا کہنا تھا کہ واقعہ میر علی سب ڈویژن کے تحصیل شیواہ کے گاؤں درازوندہ میں پیش آیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ موٹر سائیکلوں پر سوار نامعلوم عسکریت پسند رات کے وقت زبردستی اسکول میں گھس گئے اور انہوں نے اسکول کے مختلف حصوں میں بارودی مواد نصب کر دیا۔

پولیس عہدے دار کے مطابق اس دوران اسکول کے چوکیدار نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی تاہم عسکریت پسندوں نے اسے تشدد کا نشانہ بنایا۔ بعد ازاں حملہ آوروں نے دیسی ساختہ بارودی مواد کو ریموٹ کنٹرول سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں نجی اسکول کے دو کمرے مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔

شمالی وزیرستان میں حالیہ مہینوں میں اسکول جلانے اور تباہ کرنے کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔ ایک سال قبل مئی 2023 میں میر علی سب ڈویژن کے بازار کی حدود میں واقع لڑکیوں کے دو اسکولوں کو بارودی مواد سے تباہ کیا گیا تھا۔

مبینہ عسکریت پسند بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب اسکول کی عمارت میں داخل ہوئے تھے۔
مبینہ عسکریت پسند بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب اسکول کی عمارت میں داخل ہوئے تھے۔

پولیس حکام اور مقامی قبائلیوں کے مطابق ابھی تک کسی فرد یا گروہ نے نجی اسکول کو تباہ کرنے کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے۔ تاہم ان کے نزدیک یہ مبینہ دہشت گردوں کی کارروائی ہے۔

ضلعی پولیس افسر روخان زیب کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی ایف آئی آر درج کرکے مزید تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔ اس واقعے میں ابھی تک کسی قسم کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ واقعے میں ملوث مجرموں کو گرفتار کر کے سخت سزا دی جائے گی۔

تباہ کیے گئے ’عافیہ اسلامک گرلز اسکول‘ کے مالک ملک سلیم خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دھماکوں سے اسکول کے بیش تر حصے تباہ ہو چکے ہیں اور اب اسے مکمل طور پر از سر نو تعمیر کرنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس اسکول کی تعمیر لگ بھگ ڈیڑھ سال قبل مکمل پوئی تھی اور اس میں اب تک 120 سے زیادہ لڑکیوں کا داخلہ ہوا تھا۔

ملک سلیم نے کہا کہ در اصل یہ ہائی اسکول ہے مگر قبائلی روایات کے مطابق بڑی عمر کی لڑکیوں کو باہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ تاہم اب اس اسکول کی تعمیر سے مقامی لوگوں نے اپنی بچیوں کو تعلیم دلوانے میں کافی دل چسپی ظاہر کی تھی۔

عافیہ اسلامک گرلز اسکول کو تعمیر ہوئے ڈیڑھ برس کا عرصہ ہوا تھا۔
عافیہ اسلامک گرلز اسکول کو تعمیر ہوئے ڈیڑھ برس کا عرصہ ہوا تھا۔

اسکول کے پرنسپل شاکر اللہ نے بتایا کہ تباہ کیے گئے اسکول کو تھوڑا ہی عرصہ گزرا ہے۔ یہ تحصیل شیواہ اور سپین وام میں بچیوں کا واحد پرائیویٹ اسکول ہے جو فروغ تعلیم میں پیش پیش ہے۔

انہوں نے کہا کہ قریبی علاقوں میں لڑکیوں کے لیے کوئی اور سرکاری یا نجی اسکول نہیں ہے۔

چند روز قبل شمالی وزیرستان کے میر علی سب ڈویژن کے قصبے عیدک کے ایک سرکاری اسکول میں 23 امتحانی مراکز کے ہزاروں حل شدہ پرچوں کو نامعلوم عسکریت پسندوں نے آگ لگا دی تھی۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2020 سے 2022 کے اواخر تک تین برسوں میں خیبر پختونخوا کے طول و عرض میں مجموعی طور پر 776 اسکول غیر فعال یا مکمل طور پر بند ہوگئے تھے۔

بند ہونے والے اسکولوں میں اکثریت جنوبی وزیرستان میں تھی۔ اس دوران شمالی وزیرستان میں بند یا غیر فعال اسکولوں کی تعداد 53 ہے۔

شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے صحافی رسول داوڑ ان اعداد و شمار کو نامکمل قرار دیتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ سرکاری اسکولوں میں 60 فی صد سے زیادہ اسکول مکمل طور پر بند اور غیر فعال ہیں۔ لیکن سرکاری ریکارڈ میں انہیں فعال دکھایا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو اسکول ہیں وہاں بھی برائے نام ہی تعلیم جاری ہے کیوں کہ وہاں اساتذہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔

شمالی وزیرستان کے محکمۂ تعلیم کے ضلعی عہدے داروں سے بارہا کوششوں کے باوجود رابطہ نہیں ہو سکا۔

شمالی وزیرستان میں سرکاری اور نجی اسکول کو جلانے یا نقصان پہنچانے کا سلسلہ ایک ایسے وقت شروع ہوا ہے جب افغانستان سے ملحقہ ایک اور قبائلی ضلع کرم کے وسطی علاقے ذیمشت میں 14 سال سے بند چھ اسکولوں کو دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔

ان اسکولز میں داخل ہونے والے بچوں کو فری کتابیں، اسٹیشنری اور اسپورٹس کٹس فراہم کی گئی ہیں۔ حکام نے ان اسکولز کے لیے اساتذہ اور فرنیچر کا بھی فوری انتظام کیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG