رسائی کے لنکس

کھیل اور مذہب کی ہم آہنگی : مشی گن میں ایک انوکھا تجربہ


فورڈسن ہائی اسکول کی فٹبال ٹیم
فورڈسن ہائی اسکول کی فٹبال ٹیم

امریکہ کے طول و عرض میں موجود ہائی اسکولز کے طالب علم ایتھلیٹس موسمِ خزاں کے سالانہ کھیلوں کی آمد اور ان میں شرکت کے لیے پرجوش ہیں اور مقابلوں کی تیاری کے لیے دن رات جان توڑ محنت کررہے ہیں۔ تاہم ڈیر بورن، مشی گن کے فورڈ سن ہائی اسکول کی فٹبال ٹیم کو ایک مشکل صورتحال درپیش ہے۔ اس بار رمضان اور پریکٹس سیشن ساتھ ساتھ آئے ہیں اور چونکہ ٹیم کے اکثر کھلاڑی مسلمان ہیں، سو روزے کی حالت میں ان کے لیے گھنٹوں طویل سخت پریکٹس سیشنز میں شرکت مشکل ہے۔ اس مسئلے کا ٹیم کے کوچ نے ایک دلچسپ حل نکالا ہے۔

جیسے جیسے ماہِ اگست اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے، ایک جانب امریکی طالبِ علموں کی طرف سے اپنے اسکولز کو واپسی کی تیاریوں میں تیزی آتی جارہی ہے، وہیں ملک کے طول و عرض میں موجود طالب علم ایتھلیٹس موسمِ خزاں کے سالانہ کھیلوں کی آمد کے خیال سے پرجوش ہیں۔ انہی کھیلوں میں سے ایک فٹبال ہے جسے کئی قصبات اور شہروں میں عرصہ دراز سے خاص اہتمام سے منعقد کرنے کے سبب اب ایک مقامی روایت کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔

مشی گن ریاست کے شہر ڈیربورن میں واقع فورڈسن ہائی اسکول کی فٹبال ٹیم کے کھلاڑی بھی آنے والے مقابلوں کی تیاری کی غرض سے ان ہاؤس پریکٹس سیشنز میں مشغول ہیں۔ اگست کا یہ مہینہ ان نوجوان کھلاڑیوں کے لیے یوں بھی خاصا شدید ہوتاہے۔ سر پر آگ برساتے سورج میں گھنٹوں جاری رہنے والی ڈرلز اور پریکٹس میں شرکت ان نوعمرکھلاڑیوں کے لیے لازم ہوتی ہے۔

فورڈسن فٹبال ٹیم کا علامتی نشان ٹریکٹر ہے تاہم ٹیم کے کوچ فواد ذبان اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ ان کے زیرِ تربیت کھیلنے والے کھلاڑی مشینیں نہیں بلکہ جیتے جاگتے انسان ہیں جنہیں اس سخت گرمی میں ہونے والے پریکٹس سیشنز کی شدت کو جھیلنے اور اپنے آپ کو ترو تازہ رکھنے کے لیے بار بار پانی کی ضرورت پڑتی ہے۔

تاہم پریکٹس فیلڈ کے ساتھ واقع پینے کا پانی ٹھنڈا کرنے کی مشین خشک پڑی ہے اور پانی ان نوجوان کھلاڑیوں کے منہ میں جانے کے بجائے گراؤنڈ کو سیراب کر رہا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس بار پریکٹس سیشن اور رمضان ساتھ ساتھ آئے ہیں۔ فورڈسن فٹبال اسکواڈ کے بیشتر کھلاڑی مسلمان ہونے کے ناطے رمضان میں خاص اہتمام سے روزے رکھتے ہیں اور اس کیفیت میں ان سے گھنٹوں فیلڈ پریکٹس کرانا کوچ ذبان کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں۔

اس صورتحال کے بارے میں ذبان کا کہنا ہے، "یہ بالکل بھی محفوظ نہیں ہوگا۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کتنا خطرناک ہوسکتا ہے کہ ایک فرد 32 ڈگری سینٹی گریڈتک کی گرمی میں چھ سے سات گھنٹے تک فیلڈ میں دوڑتا رہے اور کچھ پینے کے قابل نہ ہو۔ یہ ہرگز ہرگز معمولی صورتحال نہ ہوگی"۔

ذبان نے اپنی ٹیم کے تمام کھلاڑیوں، بشمول مسلمان و غیر مسلم اور اسکول کے حکام سے اس کیفیت میں پریکٹس جاری رکھنے کے ممکنات پر تبادلہ خیال کیا تاکہ اس معاملے کا کوئی حل نکالا جاسکے۔ اور جو متفقہ حل سامنے آیا وہ یہ تھا کہ اب پریکٹس اس وقت کی جائے گی جب ٹیم کے مسلمان کھلاڑی اپنا روزہ افطار کرچکے ہونگے۔ یعنی رات کے اوقات میں!

اس نئے حل پہ عمل کرتے ہوئے فورڈسن کی فٹبال ٹیم ، جو "فورڈسن ٹریکٹرز" کے نام سے جانی جاتی ہے ، اس نے اگست کے مہینے میں رات دس بجے سے صبح چار بجے تک پریکٹس کرنے کو اپنا معمول بنایا۔ کوچ ذبان کے مطابق مقامی کمیونٹی اور کھلاڑیوں کے والدین کی اکثریت کی جانب سے ان کے اس قدم کی حوصلہ افزائی کی گئی اور صرف ایک مقامی خاندان نے ان کے اس معمول پہ اعتراض اٹھایا۔

ذبان اپنے اس انوکھے تجربے پہ ہونے والے ردِ عمل کے بارے میں کہتے ہیں، "ہمارے اس نئے عمل کو کچھ معترضین کی جانب سے مذہبی مسئلہ بنا کے پیش کیے جانے کی کوشش کی گئی۔ حالانکہ کوئی بھی فرد بڑی آسانی سے یہ سمجھ سکتا ہے کہ ہم کیوں مذہب اور اسکول ، یا یوں کہہ لیں کہ کھیل کو آپس میں ملا رہے ہیں۔ میرے پاس ایسے سب معترضین کے لیے بس ایک ہی جواب ہے۔ اور وہ یہ کہ ہم یہ سب اس لیے کر رہے ہیں کہ ہمیں ان بچوں کی صحت اور حفاظت عزیز ہے"۔

تاہم فورڈسن کی موجودہ ٹیم اس ٹیم سے بہت مختلف ہے جس کے لیے 1960 کی دہائی کے آغاز میں رون امین کھیلا کرتے تھے۔ اس وقت رون اپنے اسکول میں پڑھنے والے گنتی کے عرب امریکنز میں سے ایک تھے اور ان کے مطابق اس وقت ان کی مذہبی روایات و عبادات کو اسکول اور کھیل کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے بارے میں کسی نے بھی نہیں سوچا تھا۔

اس وقت کے بارے میں رون امین بتاتے ہیں، "ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ جب میں ہائی اسکول میں تھا تو اپنے پہلے ہی سال، آپ اپنی آسانی کے لیے یوں کہہ لیں کہ، سفید فام بچوں کے سمندر میں گم سا ہوگیا تھا! اور میں بہت کم دوست بنا پایا تھا۔ میں خود کو بہت اکیلا اور تنہا محسوس کرتا تھا اور بعض اوقات تو بڑی سنجیدگی سے اسکول چھوڑنے کے بارے میں بھی سوچا کرتاتھا"۔

امین کہتے ہیں کہ ان کے لیے اسکول میں حالا ت اس وقت موافق ہونا شروع ہوئے جب انہوں نے فورڈسن کی طرف سے کھیلوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ امین 1960 سے لیکر اب تک ڈیربورن میں ہونے والی تبدیلیوں کے شاہد ہیں جہاں موجود عرب-امریکن آبادی گزشتہ دہائیوں میں کئی گنا بڑھ چکی ہے اور اس سال کی فورڈسن فٹبال ٹیم اس اسکواڈ سے کہیں مختلف ہے جس کے لیے پچاس سال پہلے امین کھیلا کرتے تھے۔

اب اس فٹبال ٹیم میں 98 فیصد مسلمان ہیں! ہاں! کچھ غیر مسلم بھی ہیں مگر اکثریت مسلمانوں کی ہے" امین یہ حقیقت بڑے فخر سے بیان کرتے ہیں۔

فورڈسن ٹریکٹرز کے رات رات بھر جاری رہنے والے طویل پریکٹس سیشنز اب ختم ہوچکے ہیں اور اب ذبان اپنی ٹیم کو سہ پہر میں پریکٹس کراتے ہیں تاکہ ان کے زیرِ تربیت کھلاڑی شام کے اوقات میں کھیلے جانے والے میچز کے حالات اور موسم سے نپٹنا بھی سیکھ سکیں۔ گو کہ رمضان اب بھی جاری ہے تاہم سہ پہر میں ہونے والی یہ پریکٹس اتنی طویل ہے اور نہ اتنی سخت کہ جس سے روزہ دارکھلاڑیوں کی صحت پہ کوئی برا اثر پڑے۔

ذبان کا کہنا ہے کہ "اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے پہلے میچ کے لیے تیار ہوجائیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ ایک مشکل میچ ہوگا۔ کیونکہ ہم پہلے نمبر کی ٹیم اور گزشتہ سال کی اسٹیٹ چیمپئن نووی کیتھولک سینٹرل کا سامنا کرنے جارہے ہیں۔ ہم نے دیگر سب سرگرمیاں چھوڑ کر اپنی تمام تر توجہ اس ایک میچ کی تیاریوں کی جانب کردی ہے تاکہ اسے جیت سکیں"۔

ذبان کی ٹیم گزشتہ سال کے سیزن میں بغیر کوئی میچ ہارے مقابلے کے آخری راؤنڈ تک پہنچی تھی اور اس سال بھی ذبان اور ان کے نوعمر کھلاڑی تاریخ دہرا کر مشی گن اسٹیٹ کی فٹبال چیمپئن شپ اپنے نام کرنا چاہتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG