رسائی کے لنکس

سندھ : تھرپارکر کی صحرائی سر زمین، جہاں پانی نایاب ہے


تھرپارکر سندھ کا ایسا صحرائی علاقہ ہے جہاں تقریباً سارا سال ہی پانی کا بحران رہتا ہے۔ پانی کے اس بحران پر قابو پانے کے لئے حکومت اور غیر سرکاری تنظیمیں مل کر کام کر رہی ہیں جس سے علاقہ مکینوں کی زندگی میں انقلاب کی نوید سنائی دے رہی ہے۔

دس سالہ سوہانی بی بی کا تعلق پاکستان کے صحرائی ضلع تھرپار کر، صوبہ ِسندھ سے ہے۔ وہ اپنا نیا بستہ اور کتابیں دیکھ کر پھولے نہیں سما رہی۔ اسے اپنی چھوٹی سی زندگی میں پہلی بار یہ تحفہ ملا ہے۔ چند روز بعد وہ باقاعدہ اسکول جانا شروع کردے گی۔

سوہانی کی 35سالہ ماں آہوجہ بی بی کا کہنا ہے کہ، ’میں کب سے اسے اسکول بھیجنا چاہتی تھی۔ سوہانی پڑھنا لکھنا سیکھ لے تو زندگی بدل جائے گی‘۔

سوہانی کی زندگی میں یہ ’انقلاب‘ شمسی توانائی سے چلنے والے ٹربائن پمپ کا مرہون ِمنت ہے۔ کنویں پر ٹربائن پمپ لگنے سے پانی کی سپلائی آسان ہو گئی ہے ورنہ سوہانی کو صبح سویرے اپنی ماں اور چھوٹی بہن کے ساتھ کنویں سے پانی بھرکر گھر لانا پڑتا تھا۔ گھر خرچ، کھانا پکانا، صفائی ستھرائی، دھلائی اور پینے کے لئے پانی اکٹھا کرنے میں اسے ہر روز تین گھنٹے سے بھی زیادہ کا وقت لگتا تھا۔

سوہانی کی ماں کا کہنا ہے کہ اب گھر کا تمام کام وہ خود نمٹالے گی اور سوہانی اور اس کی بہن کو اسکول میں داخل کرا دے گی۔

تھرپارکر کے لئے پانی کی کیا اہمیت ہے اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل امر نہیں۔ فراہمی ِآب ضلع کی خوشحالی کی ضمانت ہے۔ پانی کے بحران نے سرمایہ کاری کے مواقعوں کو ضائع کردیا ہے۔

فراہمی آب تھرپارکر کا سب سے بڑا اور گھمبیر مسئلہ ہے۔ یورپی یونین کے خبررساں ادارے ’آئی آر آئی این‘ کی رپورٹ کے مطابق ضلع کا مجموعی رقبہ 22 ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ علاقے میں چودہ لاکھ افراد اور پچاس لاکھ مویشی موجود ہیں جبکہ یہاں سالانہ نو ملی میٹر سے بھی کم بارش ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اس علاقے کو قحط کا بھی سامنا رہتا ہے۔

تھرپارکر کے قصبے چھاچھرو میں پانی کی فراہمی کے لئے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’اپلائیڈایجوکیشن اینڈ رینوایبل انرجی‘ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر علی اکبر بتاتے ہیں، ’علاقے کے صرف پانچ فیصد لوگوں کو مہینے میں صرف 2 بار میٹھے پانی کی سہولت میسر آتی ہے۔ وہ بھی صرف تعلقہ مٹھی کے لوگوں کو جو تھرپار کر کا صدر مقام ہے۔ زیر ِزمین پائپ لائنیں بچھانے پر بہت خرچہ ہوتا ہے اس لئے بیشتر لوگ کنوؤں سے پانی حاصل کرنے پر مجبور ہیں‘۔

علی اکبر کا یہ بھی کہنا ہے کہ خود ان کی این جی او اور دیگر غیر سرکاری تنظیمیں اس کام پر مامور ہیں لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود حالات پر بہت کم فرق پڑا ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ زیر ِزمین پانی کے ذخائر آلودہ ہیں۔ ان کا استعمال مضر ِصحت ہے۔

حکومت کی جانب سے کچھ علاقوں میں ڈیزل سے چلنے والے ٹیوب ویلز بھی استعمال ہونے لگے ہیں لیکن تین سے چار فیصد کمیونیٹز ہی اس کا خرچہ اٹھانے قابل ہیں لہذا ایسی صورتحال میں پانی کو پینے کے قابل بنانے کے لئے ’دیسی طریقے‘ ہی رہ جاتے ہیں۔ ’تھر دیپ رورل ڈیولپمنٹ پروگرام‘ نامی ایک اور غیر سرکاری تنظیم ان طریقوں کو تقریباً ایک ہزار دیہات میں متعارف کرا چکی ہے اور چونکہ یہ طریقے مقامی افراد کو آسانی کے ساتھ قابل ِ قبول ہوتے ہیں لہذا یہ عوام میں مقبول بھی ہورہے ہیں۔

تعلقہ مٹھی کے مضافاتی علاقے کے ایک رہائشی حبیب علی کا کہنا ہے کہ، ’پانی کو ریت کی مدد سے صاف شفاف بنانے کا طریقہ صدیوں پرانا اور آج بھی کارگر ہے۔ اس کے علاوہ پانی کو نتھار کر بھی صاف کیا جاتا ہے‘۔

اندرون ِسندھ خاص کر تھرپارکر میں بارش کے پانی کو جمع کرنے کے لئے بھی بڑے بڑے ٹینک بنائے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی مختلف غیر سرکاری تنظیمیں روبہ عمل ہیں۔ اس وقت تقریباً 15636 ٹینکوں کے ذریعے بارش کا پانی جمع کیاجاتا ہے۔

تعلقہ چھاچھرو کے تقریباً 17دیہاتوں میں شمسی توانائی سے چلنے والے پمپس کا استعمال بھی رفتہ رفتہ عام ہو رہا ہے۔ اس کے استعمال کرنے والے ہر گھرسے کچھ نہ کچھ رقم لی جاتی ہے۔ اس حوالے سے باقاعدہ ایک منصوبے پر بھی عمل ہو رہا ہے۔ یہ منصوبہ سن 2017ء تک مکمل ہو جائے گا۔ علاوہ ازیں علاقے میں پن چکیاں بھی نصب کی جارہی ہیں، ان سے بھی پانی کے بحران پر قابو پانے میں بڑی حد تک مدد ملے گی۔

علاقہ مکین پانی کی فراہمی کے لئے اپنائے جانے والے ان طریقوں سے خوش اور پوری طرح مطمئن ہیں۔ ایک تھری خاتون ساسوئی بی بی کا کہنا ہے کہ، ’میرا گاؤں مٹھی سے بیس کلومیٹر دور ہے، ہمیں پانی کے حصول کے لئے روزانہ چالیس منٹ کی مسافت طے کرکے تالاب تک آنا اور جانا پڑتا ہے۔ اور جب تالاب خشک ہوجاتا ہے تو ہمیں یہ علاقہ ہی چھوڑنا پڑتا ہے۔ نئے طریقوں سے پانی کی فراہمی ہمارے لئے نئی زندگی کی نوید ہے‘۔
XS
SM
MD
LG