رسائی کے لنکس

دنیا میں ہر بیس میں سے ایک شخص ہپاٹائٹس میں مبتلا ہے


دنیا میں ہر بیس میں سے ایک شخص ہپاٹائٹس میں مبتلا ہے
دنیا میں ہر بیس میں سے ایک شخص ہپاٹائٹس میں مبتلا ہے

ہپاٹائٹس بی دنیا بھر میں انسانی صحت کے لیے ایک نمایاں خطرہ بنا ہوا ہے۔اس بیماری کی وجہ سے جگر کے کینسر کی شرح میں بھی اضافہ ہورہاہے۔۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مرض کی روک تھام اور بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ امریکہ میں ہپاٹائٹس کے سب سے زیادہ مریض ریاست کیلیفورنیا کے شہر سان فرانسسکو میں ہیں،اور اب وہاں کی ایشین کمیونٹی ،محکمہ صحت کے ساتھ مل کرہپاٹائٹس کے خلاف ایک مہم چلارہی ہے۔

چھیالیس سالہ گریگ زانگ کی حال ہی میں جگر کے ٹیومر کی سرجری ہوئی ہے ۔ ہپاٹائٹس کے باعث ان کا جگرخراب ہوگیاتھا۔ان کے سرجن ڈاکٹر سیموئل کہتے ہیں کہ ہپاٹائٹس کی مثال ایک خاموش قاتل کی سی ہے کیونکہ عموما جن لوگوں کو یہ مرض لاحق ہوتا ہے ، انہیں اس کا علم ہی نہیں ہوپاتا۔ اس مرض میں مبتلا تین میں سے دو افراد اپنے آپ کو مکمل طور پر صحت مند سمجھتے ہیں۔

ہپاٹائٹس بی انسانی جسم کے اندر خون اور جسمانی سیال مادوں میں پایا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ اس وائرس کی موجودگی کے باوجود صحت مند رہتے ہیں مگر اس بیماری میں مبتلا 20 فیصد لوگوں کا جگر خراب ہوجاتا ہے یا پھر وہ جگر کے کینسر میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ وائرس پرانی سرنجوں کے استعمال سے بھی لاحق ہو سکتا ہے۔ مگر زیادہ تر لوگ جو اس وائرس میں مبتلا ہیں، انہیں یہ وائرس ان کی پیدائش کے وقت اپنی ماؤں سے منتقل ہوا تھا۔

امریکن لیور فاؤنڈیشن کے مطابق ہر دس ایشین امریکینز میں سے ایک اس وائرس میں مبتلا ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو کسی دوسری ثقافت یا رنگ کی نسبت زیادہ تر ایشیائی باشندوں کو ہی اپنا نشانہ بناتی ہے۔ اورسان فرانسسکو کی ایک تہائی آبادی ایشیائیوں پر مبنی ہے۔

سان فرانسسکو میں اس مرض سے بچاؤ کے لیے ایک مہم چلائی جارہی ہے، جس میں اس کی مفت تشخیص،حفاظتی ٹیکے اور علاج مہیا کیا جا رہا ہے۔ اس بیماری کا کوئی حتمی ِ علاج موجود نہیں ہے، لیکن اسےوائرس پر قابو پانے والی دواؤں کی مدد سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ ایسے افراد جو اس بیماری میں مبتلا ہیں، انہیں ہر سال جگر کے کینسر سے بچاؤ کے لیے الٹرا ساؤنڈ اور خون کے ٹیسٹ کرانے چاہییں۔

نوزائیدہ بچوں کو ان کی پیدائش کے پہلے ہی روز اس وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسین دینی چاہیئے تاکہ ان میں ان کی ماؤں سے یہ وائرس منتقل نہ ہو سکے۔ جبکہ اگلے چھ ماہ میں انہیں دو مزید حفاظتی ٹیکوں کی خوراکیں دی جانی چاہییں۔

اس حوالے سے عوام میں شعور بیدار کرنا بھی اس مہم کا حصہ ہے۔ اس مہم کے دوران ایک ایسا متنازع اشتہار بھی اس مہم میں دکھایا جا رہا ہے جس میں دس ایشیائی خواتین دکھائی گئی ہیں اور ان سے پوچھا جاتا ہے کہ ان دس میں سے کون ایک مرنا چاہتی ہے۔

سٹینڈ فورڈ کے ڈاکٹر سو کا، جن کی خوش دامن اس مرض میں مبتلا ہو کر جگر کے کینسر سے اپنی جان گنوا بیٹھی تھیں، کہنا ہے کہ دیگر بیماریوں کو زیادہ عوامی توجہ ملتی ہے اور زیادہ پیسہ بھی۔ ہم ہپاٹائٹس بی کو نظر انداز کرتے ہیں۔ جبکہ دنیا میں ہر 20 میں سے ایک شخص اس مرض میں مبتلا ہے۔ اس کے مریضوں کی تعداد ایڈز سے دس گنا زیادہ ہے۔

XS
SM
MD
LG