رسائی کے لنکس

منجمد اثاثوں کی تقسیم کے امریکی اعلان پر افغان برہم: 'رقم طالبان کی نہیں، عوام کی ہے'


کابل کی مرکزی عید گاہ مسجد کے باہر ہونے والے مظاہرے کے شرکا نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ 20 سال طویل افغان جنگ میں ہلاک ہونے والے لاکھوں افغان شہریوں کے لواحقین کو بھی زرِ تلافی دے۔
کابل کی مرکزی عید گاہ مسجد کے باہر ہونے والے مظاہرے کے شرکا نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ 20 سال طویل افغان جنگ میں ہلاک ہونے والے لاکھوں افغان شہریوں کے لواحقین کو بھی زرِ تلافی دے۔

امریکی حکومت کی جانب سے منجمد کیے جانے والے افغان اثاثوں میں سے ساڑھے تین ارب ڈالر نائن الیون کے دہشت گرد حملوں کے متاثرین کے لیے مختص کرنے کے امریکی اعلان پر افغان شہریوں اور تارکینِ وطن کی جانب سے سخت ردِ عمل سامنے آ رہا ہے۔

افغانستان کے مرکزی بینک نے بھی صدر بائیڈن سے اپنا فیصلہ واپس لینے اور فنڈز مرکزی بینک کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ہفتے کو جاری ایک بیان میں 'د افغانستان بانک' نے کہا کہ یہ پیسہ کسی حکومت، جماعت یا گروہ کا نہیں بلکہ افغان عوام کا ہے جو انہیں واپس ملنا چاہیے۔

ہفتے کو کئی افغان شہریوں نے امریکی فیصلے کے خلاف کابل کی مرکزی عید گاہ مسجد کے باہر مظاہرہ بھی کیا۔

مظاہرے کے شرکا نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ 20 سال طویل افغان جنگ میں ہلاک ہونے والے لاکھوں افغان شہریوں کے لواحقین کو بھی زرِ تلافی دے۔

مظاہرے کے ایک منتظم اور سماجی کارکن عبدالرحمان نے مظاہرین سے خطاب میں کہا کہ یہ رقم امریکہ کی نہیں بلکہ افغانستان کی ہے اور اس پر صرف افغان عوام کا حق ہے۔

انہوں نے اعلان کیا کہ وہ صدر بائیڈن کے اس فیصلے کے خلاف مزید مظاہرے منعقد کریں گے۔

امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے جمعے کو ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے تھے جس کے تحت امریکی حکومت کی جانب سے افغانستان کے مرکزی بینک کے منجمد کیے جانے والے سات ارب ڈالر کے اثاثے دو برابر حصوں میں تقسیم کر دیے جائیں گے۔

حکم نامے میں امریکی مالیاتی اداروں سے کہا گیا ہے کہ وہ منجمد اثاثوں میں سے ساڑھے تین ارب ڈالر اقوامِ متحدہ کی زیرِ نگرانی ایک ٹرسٹ فنڈ میں منتقل کریں جسے افغان عوام کی امداد اور انہیں بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

امریکی صدر کے حکام نامے کے مطابق باقی کے ساڑھے تین ارب ڈالر امریکہ میں ہی موجود رہیں گے جنہیں 11 ستمبر، 2001 کے دہشت گرد حملوں کے امریکی متاثرین کو زرِ تلافی کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

نائن الیون حملوں میں مرنے والوں کے لواحقین اور متاثرین نے طالبان کے خلاف اور امریکہ کی جانب سے منجمد کی گئی سات ارب ڈالر کی رقم کے بطور زرِ تلافی حصول کے لیے مقدمات دائر کر رکھے ہیں۔ متاثرین کو اس رقم کی ادائیگی عدالتی فیصلوں سے مشروط ہوگی جب کہ افغان عوام کی امداد کے لیے منجمد اثاثوں کے استعمال کی منظوری بھی امریکی عدالتیں ہی دیں گی۔

امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک نے افغان حکومت کے بیرونِ ملک موجود اثاثے اور افغانستان کے لیے بین الاقوامی فنڈنگ گزشتہ سال اگست میں اس وقت منجمد کر دی تھی جب طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھالا تھا۔

'پہلے افغانستان غریب ملک تھا اب وہاں فاقہ کشی ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:04 0:00

بین الاقوامی فنڈنگ روکے جانے کے بعد سے افغانستان شدید ترین معاشی بحران کا شکار ہے اور اقوامِ متحدہ سمیت بین الاقوامی امدادی تنظیمیں مسلسل خبردار کر رہی ہیں کہ افغانستان کی بیش تر آبادی شدید غربت، بھوک اور افلاس کا شکار ہے۔

ماہرین کے مطابق افغان حکومت کے لگ بھگ نو ارب ڈالر کے اثاثے بیرونِ ملک موجود ہیں جن میں سے سات ارب ڈالر امریکہ کی تحویل میں ہیں۔ باقی اثاثوں میں سے بیش تر تین ممالک – جرمنی، متحدہ عرب امارات اور سوئٹزرلینڈ میں ہیں۔

وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ صدر بائیڈن کا حکم نامہ افغانستان کے عوام تک منجمد فنڈز کی براہِ راست فراہمی ممکن بنانے کا ایک راستہ ہے جس کے نتیجے میں یہ رقم "طالبان کے بدنیت عناصر کے ہاتھوں سے دور رکھی جائے گی۔"

تاہم طالبان حکومت، افغان شہریوں اور کئی افغان تارکینِ وطن نے اس امریکی فیصلے پر تنقید کی ہے اور اس کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھائے ہیں۔

جمعے کو صدر بائیڈن کی جانب سے حکم نامے کے اجرا کے بعد ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ 'یو ایس اے اسٹول منی فرام افغان' ٹرینڈ کر رہا تھا اور کئی افغان شہریوں اور تارکینِ وطن نے اس ہیش ٹیگ کے ذریعے امریکی فیصلے پر اپنے ردِ عمل کا اظہار کیا۔ کئی ٹوئٹس میں ناقدین نے اس حقیقت کی بھی نشان دہی کی کہ نائن الیون میں ملوث حملہ آور افغان نہیں بلکہ سعودی شہری تھے۔

کابل کی امیرکن یونیورسٹی کے لیکچرار اور سماجی کارکن عبید اللہ بہیر نے ٹوئٹ کیا: "دنیا کو یہ بات یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ نائن الیون حملوں میں افغان ملوث نہیں تھے اور بائیڈن افغانوں کا پیسہ چوری کر رہے ہیں۔"

افغانستان کی سابق حکومت کے ایک مالی مشیر طارق فرہادی نے بھی افغانستان کے مرکزی بینک کے اثاثوں کے اقوامِ متحدہ کے ذریعے انتظام کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ فنڈز امدادی مقاصد کے لیے نہیں بلکہ ان کا مقصد افغان کرنسی کی قدر اور مانیٹری پالیسی کو سہارا دینا اور افغانستان کی جانب سے ادائیگیوں کے توازن کو ممکن بنانا ہے۔

طارق فرہادی نے کہا کہ یہ رقم طالبان کی نہیں بلکہ افغان عوام کی ہے اور اس بارے میں بائیڈن حکومت کا فیصلہ سراسر یک طرفہ اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔

طالبان نے بھی صدر بائیڈن کے اس فیصلے کو افغان عوام کے پیسے کی چوری قرار دیا ہے۔ طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان محمد نعیم نے اپنے ایک ٹوئٹ میں امریکی صدر کے اس اقدام کو "کسی بھی ملک اور قوم کے لیے۔۔۔ بدترین حرکت" قرار دیا۔

اثاثے افغان عوام کو لوٹائے جائیں: پاکستان

افغانستان کے پڑوسی ملک پاکستان نے بھی امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان کے منجمد اثاثے افغان عوام کو واپس کرے۔

اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا ہے کہ افغانستان کی جنگ زدہ معیشت کو نئی زندگی دینے اور سخت سرد موسم میں لاکھوں افغانوں کی زندگیاں بچانے کے لیے یہ فنڈز انتہائی ضروری ہیں۔

صدر بائیڈن کے اعلان پر اپنے ردِ عمل میں پاکستانی مندوب نے کہا کہ امریکہ کے اس اقدام سے عالمی اقتصادی نظام پر بھی سوال اٹھتے ہیں جس میں ایک ملک کسی دوسری ملک کے اثاثے یک طرفہ طور پر روک سکتا ہے اور پھر انہیں اپنے ہی شہریوں کو زرِ تلافی کی ادائیگی کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلسل مطالبہ کرتا آیا ہے کہ افغانستان کے یہ اثاثے افغان عوام کو واپس لوٹائے جائیں تاکہ انہیں افغانوں کو صحت اور تعلیم کی سہولتوں کی فراہمی اور افغانستان میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے استعمال کیا جاسکے۔

XS
SM
MD
LG