رسائی کے لنکس

2016 میں ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہونے والی بہتری


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ایک طرف تو بغیر ڈرائیور کے چلنے والی خودکار گاڑیاں سڑکوں پر نظر آئیں تو دوسری طرف خلائی تحقیق سے متعلق کچھ نجی کمپنیوں کے راکٹ لانچ پیڈ پر ہی دھماکے سے تباہ ہو گئے۔

2016ء میں جہاں ٹیکنالوجی نے کچھ اہم پیش رفت کی وہاں چند ناکامیاں بھی دیکھنے میں آئیں۔

ایک طرف تو بغیر ڈرائیور کے چلنے والی خودکار گاڑیاں سڑکوں پر نظر آئیں تو دوسری طرف خلائی تحقیق سے متعلق کچھ نجی کمپنیوں کے راکٹ لانچ پیڈ پر ہی دھماکے سے تباہ ہو گئے۔ ان تمام عوامل کے باوجود ٹیکنالوجی بدستور ہمیں ایک بہتر مستقبل کی نوید سناتی ہے۔

بجلی سے چلنے والی گاڑیاں نئی چیز نہیں رہیں اور اب گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنیاں تیزی سے خود کار گاڑیوں کی ٹیکنالوجی کی جانب بڑھتی دکھائی دیتی ہیں۔

متعدد حادثات کے باوجود، جن میں سے ایک مہلک ثابت ہوا تھا، گاڑیاں بنانے والی اور کرائے پر گاڑیاں فراہم کرنے والی کمپنیاں شدت کے ساتھ ایسی گاڑیوں پر زور دے رہی ہیں جن کے استعمال میں اختیار کے کئی درجے فراہم کئے جائیں گے۔

ان میں نہ صرف ایسی گاڑیاں شامل ہیں جن میں ڈرائیور جب چاہے گاڑیوں کا کنٹرول سنبھال سکے بلکہ ایسی گاڑیاں بھی شامل ہیں جو سڑک پر ہونے والے تجربات سے استفادہ کر سکیں۔ سول میپس کے سراون پُٹّا گُنٹا کہتے ہیں کہ

’’جب مستقبل میں کسی خود کار گاڑی کو ایسی صورت حال کا سامنا ہو گا تو ہم اس بات کا جائزہ لے سکتے ہیں کہ لاکھوں کروڑوں لوگوں کا ایسی صورت حال میں کیا رد عمل تھا، اور یہ خود کار گاڑیاں اُن میں سے بہترین رد عمل کا انتخاب کر سکیں گی۔‘‘

فائل فوٹو
فائل فوٹو

2016ء کے دوران چھوٹے بڑے ہر طرح کے روبوٹس کے علاوہ انسانوں جیسی خصوصیات کے حامل اور عجیب و غریب دکھائی دینے والے جانوروں میں بھی بے تحاشا اضافہ دیکھا گیا۔ ان میں سے کچھ تو عام لوگوں کی مدد بھی کر رہے ہیں۔دی روپوٹ کے شیلڈن بتاتے ہیں کہ

’’یہ روبوٹ ڈپارچر گیٹ کو تیزی سے تلاش کرنے میں لوگوں کی مدد کرتا ہے تاکہ اُن لوگوں کو پرواز کے لئے دیر نہ ہو۔‘‘

تاہم اِن میں سے بیشتر ابھی تجرباتی مرحلے میں ہیں جہاں یہ ہارڈ ویئر اور سوفٹ ویئر کے مشکل ترین مسائل کو حل کرنے میں سائنسدانوں کی مدد کر رہے ہیں۔

جبکہ دوسرے روبوٹس صنعت اور سائنس کے شعبوں کے علاوہ مریخ کی سطح پر بھی پہلے ہی سے کام کر رہے ہیں۔

اِن روبوٹس کے قریبی رشتہ دار یعنی ڈرون جلد ہی خریداروں کے لئے سامان کی ترسیل کی خدمات انجام دینے والے ہیں۔

میڈیکل ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی خاصی پیش رفت ہوئی ہے اور کارٹی لیج جیسے نسبتاً کم پیچیدہ ٹیشو سے لے کر دماغ کی طرف سے کنٹرول کئے جانے والے بیرونی خول کی دوبارہ افزائش کے اقدامات شامل ہیں جن سے معذور افراد کو کسی قدر حرکت کرنے کی صلاحیت حاصل ہو جاتی ہے۔ یونیورسٹی آف ٹیوبنگن کے سورجو سوکاڈر کے مطابق ’’مثال کے طور پر اگر آپ کا ہاتھ حرکت کرنے لگتا ہے جبکہ اِس حرکت کے لئے آپ کا کوئی ارادہ نہیں تھا تو آپ اپنی آنکھ کی جنبش سے ایسی حرکت کو روک سکتے ہیں۔‘‘

اب تھری ڈی پرنٹرز کی مدد سے مشینوں کے پیچیدہ پرزوں کو تیار کرنا ممکن ہو چکا ہے۔ این سِس کے سربراہ جیمز کیش مین کا کہنا ہے کہ ’’اگر آپ یہاں اندر سے اسے دیکھیں تو یہاں شہد کے چھتے کی طرح کی چیز موجود ہے جس سے آپ بہت ہی ہلکی ساخت کی چیز بنا سکتے ہیں اور آپ کو کسی ایسے مشینی اوزار کی ضرورت نہیں رہتی جو پرانے طرز پر چیزیں بنائے۔ آپ یہ کام جسمانی طور پر کر ہی نہیں سکتے۔‘‘

صارفین کی ٹیکنالوجی کو سب سے بڑا دھچکا سام سنگ کے گیلیکسی سیون، اسمارٹ فون کو لانچ کرتے وقت ہوا جس کی بیٹری میں خود کو تباہ کر دینے کا رجحان موجود تھا۔ سام سنگ نے فوری طور پر اس کا متبادل پیش کر دیا لیکن اس سے یہ مسئلہ حل نہ ہوا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تیار کئے گئے تمام تر فونز کو واپس لینا پڑا۔

سام سنگ گیلیکسی ۔7 (فائل فوٹو)
سام سنگ گیلیکسی ۔7 (فائل فوٹو)

سپیس ایکس کا راکٹ لانچ پیڈ پر ہی تباہ ہو گیا جس میں کوئی انسانی عملہ موجود نہیں تھا۔ راکٹ کی تباہی سے اس میں موجود کمرشل سیٹلائیٹ بھی تباہ ہو گئے۔ یوں زمین کے قریبی مدار میں اور بین الاقوامی خلائی سٹیشن کے لئے باقاعدہ کمرشل فلائیٹس کے حوالے سے اس کمپنی کے منصوبے سست روی کا شکار ہو گئے۔

2016ء میں گھروں میں مدد کیلئے آڈیو پلیئرز کی فراہمی میں بھی بہت زیادہ اضافہ دیکھا گیا جو آواز کے ذریعے دئے جانے والے احکامات کو پہچان کر مطلوبہ کام انجام دیتے ہیں جیسے کہ مطلوبہ موسیقی کو بجانا یا انٹرنیٹ پر معلومات تلاش کرنا وغیرہ۔

واٹسن نامی آئی بی ایم کا سوپر کمپیوٹر دنیا بھر میں متعدد منصوبوں پر ڈاکٹروں کی مدد کر رہا ہے۔ان میں سے ایک سوپر کمپیوٹر غیر معمولی بیماریوں کے بارے میں اطلاعات جمع کر کے فراہم کرتا ہے۔ ماربرگ کے یونیورسٹی ہسپتال کے ڈاکٹر جرگن شیفر کہتے ہیں کہ ’’شعبہ طب کے حوالے سے معلومات میں دُگنا اضافہ ہو رہا ہے۔ لہذا اگر آپ طبی شعبے کی معلومات میں ہونے والے اس خطیر اضافے سے فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں مددگار سسٹمز کی ضرورت ہو گی اور اس کو استعمال کرنے کے لئے ہمیں سوفٹ ویئر کے ٹولز درکار ہوں گے۔‘‘

2016ء میں ہم نے کمپیوٹر نیٹ ورکس میں بہت سی کمزوریوں کا بھی مشاہدہ کیا جن میں نجی معلومات کی چوری کے کئی واقعات شامل ہیں۔ لہذا ماہرین کا خیال ہے اس نئے سال کے دوران سائبر سیکورٹی پر خصوصی توجہ ٹیکنالوجی کے سب سے اہم رجحانات میں سے ایک ہو گی۔

XS
SM
MD
LG