رسائی کے لنکس

کیا پاکستان اسلامی جمہوریہ بننے کے لیے تیار ہے؟


نوجوانوں کی جمہوریت سے ناراضگی میرے لیے کوئی حیرت کی بات نہیں تھی لیکن اس بات پر حیرت ہوئی کہ پاکستانی نوجوان شریعت کا نفاز کس طرح چاہ سکتے ہیں جب نوجوانوں کی بڑی تعداد مغربی تہذیب کو اپنانے کی دوڑ میں لگی ہوئی ہے۔

پاکستان میں پارلیمانی انتخابات پر نہ صرف پاکستانی عوام کی نظریں جمی ہیں بلکہ امریکہ میں بھی انہیں نہایت اہمیت سے دیکھا جا رہا ہے۔ ایک جمہوری حکومت کے اختتام کے بعد دوسری جمہوری حکومت کا انتخاب پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کر پائے گا یا پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار جمہوری معیاد پوری کرنی والی گزشتہ حکومت کی طرح نئی حکومت بھی عوام کو جمہوریت کی ایک بھیانک تصویر پیش کرے گی۔


حالیہ انتخابات اس لیے بھی اہم ہیں کیونکہ یہ پاکستان بننے کے پینسٹھ سال بعد نظریہ پاکستان کا تعین کرتے نظر آ رہے ہیں۔ انتخابات کے نتائج واضح کریں گے کہ پاکستانی عوام کو ’’ اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ چاہئے یا ایک لبرل پاکستان؟

امیدواروں کی اہلیت کو آئین کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ میں تولنے کے حوالے سے جس بحث کا آغاز ہوا ، اس نے مبصرین کو دو گروپوں میں تقسیم کر دیا۔

ایک وہ جو پاکستان کو سعودی عرب کی طرح مکمل اسلام اور شریعہ کے مطابق ڈھلتا دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ ایک گروپ پاکستان کو لبرل اور سیکیولر ملک کی حیثیت سے دیکھنا چاہتا ہے۔ لیکن اس بحث کا حتمی فیصلہ پاکستانی عوام کریں گے جس میں ایک بڑٰی تعداد نوجوانوں کی ہو گی جو اپنے مستقبل کو ایک مخصوص سمت کی طرف بڑھتا دیکھنا چاہتے ہیں۔


پاکستانی نوجوانوں کے رحجان کی بات کی جائے تو کچھ عرصہ پہلے تک میرا اندازہ تھا کہ ہم نوجوان پاکستان کو ایک لبرل ملک کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے ہیں جہاں آزادی، تحفظ اور مواقعوں کی تقسیم شہریوں کے مذہب کی بنیاد پرنہ کی جائے۔

اور جہاں انسان کی اچھائی کا پیمانہ اس کی مذہبی سرگرمیوں کی بجائے اس کے اعمال کی بنیاد پر ہو۔ لیکن حال ہی میں ہونے والی ایک ریسرچ کے نتیجے میں شائع کی جانے والی ایک رپورٹ نے نوجوانوں کے رحجان کے حوالے سے میری سوچ سے بالکل مختلف رخ پیش کیا ۔

برٹش کونسل کی جانب سے کیے جانے والے ایک پول کے مطابق نوجوان پاکستان میں جمہوریت کی بجائے شریعت کو فوقیت دیتے نظر آ رہے ہیں اور اگر ان کے پاس کوئی چوائس ہو تو وہ جمہوریت کی بجائے ملٹری رول کا نفاذ چاہیں گے۔


نوجوانوں کی جمہوریت سے ناراضگی میرے لیے کوئی حیرت کی بات نہیں تھی لیکن اس بات پر حیرت ہوئی کہ پاکستانی نوجوان شریعت کا نفاز کس طرح چاہ سکتے ہیں جب نوجوانوں کی بڑی تعداد مغربی تہذیب کو اپنانے کی دوڑ میں لگی ہوئی ہے۔

کیا ہم نوجوانوں کو قبول ہو گا کہ چوری کرنے والے شخص کے ہاتھ کاٹ دییے جا ئیں، جرموں کی سزا کوڑوں کی صورت میں دی جائے گی۔ سینیما اور تھیٹروں کو بند کر دیا جائے گا، اور حدود قوانین کا نفاذ عمل میں لایا جائے گا۔


دوسری جانب جمہوریت کو ہی پاکستان کے تمام مسائل کا حل مانا جاتا ہے مگر گزشتہ حکومت کی کارکردگی نے نوجوانوں کو جمہوریت کی وہ خوفناک تصویر پیش کی ہے کہ انہیں شریعت جیسے سخت اسلامی قوانین اور آمریت جیسی لعنت کے انتخاب میں کوئی عار نہیں رہی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والی نئی حکومت ملک اور نوجوانوں کے رحجان کو کس جانب گامزن کرتی ہے۔
XS
SM
MD
LG