اسلام آباد میں کرونا وائرس کے بڑھتے کیسز پر انتظامیہ کیا کر رہی ہے؟
وفاقی دارالحکومت میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ شہر میں جزوی لاک ڈاؤن جاری ہے لیکن سرکاری دفاتر کھلے ہیں۔ سڑکوں پر جراثیم کش ادویات کا اسپرے بھی کیا جا رہا ہے۔ کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے شہری انتظامیہ مزید کیا اقدامات کر رہی ہے؟ جانتے ہیں عاصم علی رانا کی اس رپورٹ میں۔
کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے شہریوں کی اذانیں
کرونا وائرس کی وبا سے نجات کے لیے پاکستان میں شہری اذانیں دے رہے ہیں۔ علما کی اپیل پر روزانہ رات 10 بجے مساجد اور گھروں میں اذانیں دی جاتی ہیں۔
کرونا وائرس: اسلام آباد میں شہزاد ٹاؤن کا علاقہ سیل
کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے اسلام آباد انتظامیہ شہزاد ٹاؤن کے علاقے کو سیل کر دیا ہے۔ علاقے میں 500 سے زائد گھر ہیں جن کے مکیںوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ پولیس اور رینجرز نے علاقے کے تمام داخلی اور خارجی راستوں کو بند کیا ہوا ہے۔
- By ضیاء الرحمن
لاہور ہائی کورٹ: معمولی جرائم میں قید افراد کے کیسز ترجیحی بنیاد پر سننے کا حکم
لاہور ہائی کورٹ نے معمولی جرائم میں قید افراد کے کیسز کو ترجیحی بنیادوں پر سننے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے یہ حکم نامہ کرونا وائرس کے پھیلاو کو روکنے کے لیے جاری کیا ہے۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس قاسم خان کی ہدایت پر ڈائریکٹر جنرل ڈسٹرکٹ جوڈیشری ملک مشتاق احمد اوجلہ نے صوبہ پنجاب تعینات تمام سیشن ججز اور جیل سپرنٹنڈنٹس کو ایک مراسلہ لکھا ہے۔
مراسلے میں ہدایت کی گئی ہے کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے معمولی نوعیت کے مقدمات میں قید ملزمان کی ضمانت کی درخواستیں متعلقہ سپرنٹنڈنٹس جیل کو دائر کریں۔
متعلقہ سیشن ججز کو بھی ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ ضمانت کی درخواستیں متعلقہ ٹرائل میں سماعت کے لیے مقرر کریں۔
مراسلے میں واضح کیا گیا ہے کہ دہشت گردی کے مقدمات میں سزا پانے والے یا زیر ٹرائل ملزموں پر ان ہدایات کا اطلاق نہیں ہو گا۔
عدالتی ہدایات پر وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل عابد ساقی کہتے ہیں کہ معمولی جرائم میں قید قیدیوں کی رہائی یا ضمانتوں کو آسان نہیں بنایا گیا بلکہ اِس میں بہت سے پیچیدگیاں ہیں۔
ان کے بقول ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عدالتیں جیلوں کے اندر ہی جوڈیشل افسر مقرر کر دیتیں جو جیل سپرنٹنڈنٹس کے ساتھ مل کر موقع پر ہی فیصلے کرتے۔ ایسی ضمانتوں میں مجرمان کے گھر والوں کو شامل کرنا پڑے گا اور وکلا کو بھی عدالتوں میں پیش ہونا پڑے گا۔ بات وہی میل ملاپ والی آ جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ وکلا صاحبان کرونا وائرس اور حکومتی لاک ڈاؤن کی وجہ سے صرف ضروری کیسز میں عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں۔ عدالت کو اِس سارے عمل کو بہت زیادہ آسان بنانا چاہیے تھا۔
واضح رہے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ پہلے ہی ایسے قیدیوں کی رہائی کے بارے میں احکامات جاری کر چکے ہیں۔