عالمی معیشت کو متحرک رکھنے کے لیے، جی ٹوئنٹی گروپ پانچ کھرب ڈالر دے گا
دنیا کے امیر ترین 20 ممالک کی تنظیم 'جی ٹوئنٹی' کے سربراہ اجلاس میں شرکت کرنے والے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ کرونا وائرس سے ہونے والی معاشی تنزلی کا مقابلہ کرنے کے لیے عالمی معیشت میں پانچ کھرب ڈالر سے زیادہ کا اضافہ کریں گے، تاکہ معیشت متحرک رہے۔
اس کے علاوہ اجلاس کے شرکا نے صحت سے متعلق خسارے میں ایک دوسرے کو شریک کرنے اور عالمی تجارت میں ہونے والے انتشار کو دور کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
اس اجلاس میں رہنما بالمشافہ شامل نہیں ہوئے بلکہ ویڈیو کانفرنس کے ذریعے اس میں شمولیت اختیار کی۔ اجلاس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے یکجہتی کے ساتھ، ایک شفاف، مربوط، اور سائنسی بنیادوں پر استوار ایک وسیع تر لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ جی ٹوئنٹی اجلاس کی کارروائی پر جمعرات ہی کے روز ایک پریس کانفرنس میں بات کریں گے، جس میں وائٹ ہاؤس کی کرونا وائرس سے متعلق ٹاسک فورس کے ارکان بھی شامل ہوں گے۔
کرونا وائرس: اپنا علاج خود کرنا نقصان دہ ہو سکتا ہے
ان دنوں کرونا وائرس کی وجہ سے گھروں میں بند ہوجانے والے لوگوں کے لیے اسپتال جانے یا میڈیکل اسٹورز پر جا کر دوائیاں خریدنے کی سہولت محدود ہو گئی ہے۔
ایسے میں بہت سے لوگ خود میں کرونا جیسی کسی بھی علامت کو پا کر ڈاکٹر سے مشورے کے بغیر ازخود ہی ایسی ادویات کا استعمال کر رہے ہیں جو انہیں گھر پر آسانی سے دستیاب ہیں۔ یا جن کے بارے میں انہیں سوشل میڈیا کے کسی غیر مستند ذریعے سے یا کسی بھی دوسرے ذریعے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ وہ دوا ان علامات کے لیے کارگر ہے۔
ایسی ہی ایک دوا کلورو کوئین ہے، جس کے بارے میں یہ مشہور ہو گیا ہے کہ یہ کرونا وائرس کے علاج کے لئے مفید ہے۔
لیکن، سوال یہ ہے کہ کیا ان ادویات کو ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر استعمال کیا جانا چاہیے؟ اس بارے میں ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ سائنسز کراچی کے ہیڈ آف مالی کیولر پیتھالوجی پروفیسر ڈاکٹر سعید خان نے ٹیلی فون پر ایک انٹرویو میں بتایا کہ ایسا کرنا بالکل مناسب نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ اب تک ریسرچ کے مطابق، کوئی ایسی مستند دوا حتمی طور پر تیار نہیں ہوئی جو کرونا وائرس کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے موثر اور مستند قرار دی گئی ہو۔
- By سدرہ ڈار
'کوشش ہے ماسک کم قیمت پر لوگوں کو فراہم کریں'
کرونا وائرس کے باعث پاکستان میں ماسک کی طلب میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ایک طرف جہاں اس وبا سے کاروبار متاثر ہوا ہے وہیں ایک گارمنٹ فیکٹری نے کینسل ہونے والے آرڈرز کی جگہ ماسک بنانے کا کام شروع کر دیا ہے۔ یہ ماسک کیسے تیار ہو رہے ہیں؟ مزید جانیے سدرہ ڈار کی ڈیجیٹل رپورٹ میں
- By قمر عباس جعفری
کم آمدنی کے حامل لوگوں کے لیے حکومتی امداد، تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟
پاکستان میں کرونا کے باعث مالی نقصان اٹھانے والے کم آمدنی کے حامل لوگوں کے لیے چار ماہ تک تین ہزار روپے ماہانہ کی مدد ایک ایسے ملک میں جہاں بیشتر معیشت غیر دستاویزی ہے یعنی اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا، مستحق لوگوں تک کس طرح پہنچائی جائے گی۔
یہ ایک بڑا سوال ہے۔ دوسرا بڑا سوال یہ ہے کہ کیا یہ رقم ان لوگوں کے لیے واقعی کافی ہوگی جو اپنے چھوٹے چھوٹے کاروباروں سے بیس سے پچیس ہزار روپے ماہانہ کما کر اپنی گزر بسر کرتے تھے، جو لاک ڈاؤن کے سبب اب بالکل بند پڑے ہیں۔
ان سوالوں کا جواب دیتے ہوئے، وزیرِ اعظم کے ترجمان ندیم افضل چن نے بتایا ہے کہ اس کے لیے لیبر ڈیپارٹمنٹ میں رجسٹرڈ مزدوروں اور مختلف علاقوں میں چھوٹے کاروبار کرنے والوں یا محنت مزدوری کرنے والوں اور ریڑھیاں لگانے والوں کے مقامی انتظامیہ کے پاس موجود ریکارڈ سے استفادہ کیا جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ بینظیر اِنکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ لوگ بھی اس میں شامل ہو جائیں گے اور یوں کم از کم 80 فیصد مستحقین تک رسائی ہو جائے گی جن کو یہ مدد دی جا سکے گی۔