رسائی کے لنکس

بھارت: حکمراں جماعت میں مسلمانوں کی نمائندگی کیوں کم ہو رہی ہے؟


بھارت کے اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے بدھ کو مرکزی کابینہ سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ راجیہ سبھا کی ان کی رکنیت جمعرات کو ختم ہو رہی تھی۔

ان کے مستعفی ہونے کے بعد اب وزیرِ اعظم نریندر مودی کی کابینہ میں ایک بھی مسلمان وزیر نہیں رہا۔ ا س کے ساتھ ہی اب حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں بھی ایک بھی مسلم رکن پارلیمنٹ نہیں ہے۔ جب کہ اس کے ارکانِ پارلیمنٹ کی تعداد (راجیہ سبھا اور لوک سبھا) 395 ہے۔

اس سے قبل بی جے پی کے راجیہ سبھا کے دو ارکان ایم جے اکبر اور سید ظفر اسلام کی کی رکنیت ختم ہوئی تھی۔

ایم جے اکبر کو خاتون صحافیوں کے جنسی استحصال کے الزامات کے بعد شروع ہونے والی ’می ٹو‘ مہم کے نتیجے میں مرکزی کابینہ سے اکتوبر 2018 میں استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ اس وقت وہ وزیر مملکت برائے امور خارجہ تھے۔

کافی عرصے کے بعد ایسا ہوا ہے کہ بی جے پی میں ایک بھی مسلمان رُکن پارلیمنٹ نہیں ہے۔ اسی طرح بھارت کی پارلیمانی جمہوریت کی تاریخ میں پہلی بار حکومت میں مسلمانوں کا کوئی نمائندہ نہیں ہے۔

مختار عباس نقوی کا استعفیٰ ایسے وقت میں ہوا ہے جب بی جے پی حکومت پر عائد کیے جانے والے مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کے الزامات میں شدت آگئی ہے۔ بی جے پی کی معطل قومی ترجمان نوپور شرما کے متنازع بیان کے بعد حکومت کو سخت تنقید کا سامنا ہے۔

نوپور شرما کو اگر چہ پارٹی سے برطرف کر دیا گیا ہے لیکن ان کے خلاف تاحال قانون کے تحت کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ حالانکہ نصف درجن سے زائد ریاستوں میں ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جا چکی ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ بی جے پی پارلیمنٹ میں مسلمانوں کو کم نمائندگی دیتی رہی ہے۔ محتار عباس نقوی تین بار راجیہ سبھا کے رکن بنائے گئے تھے۔ وہ ایک بار لوک سبھا کے لیے بھی منتخب ہوئے تھے۔ جب کہ نجمہ ہپت اللہ اور سید شاہنواز حسین کو دو دو بار ایم پی بنایا گیا۔ شاہنواز حسین واجپئی حکومت میں وزیر رہے ہیں۔

وہ اس وقت ریاست بہار کی بی جے پی اور جتنا دل یونائیٹڈ (جے ڈی یو) کی مخلوط حکومت میں وزیر صنعت ہیں۔ نجمہ ہپت اللہ کو بی جے پی نے 2016 میں منی پو رکا گورنر بنایا تھا۔ وہ اس وقت جامعہ ملیہ اسلامیہ کی چانسلر ہیں۔

بھارتی لوک سبھا میں مسلمانوں کی تعداد کم کیوں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:02 0:00


دہلی سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کے بانیان میں سے ایک سکندر بخت دو بار راجیہ سبھا کے رکن اور مرکزی وزیر رہے۔

دور درشن نیوز (سرکاری نیوز چینل) کی سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل، سینئر صحافی اور مصنفہ پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ کا کہنا ہے کہ بھارت کی پارلیمانی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب حکمراں جماعت میں کوئی مسلم ممبر نہیں ہے اور نہ ہی حکومت میں مسلمانوں کی کوئی نمائندگی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ اس وقت بھارت میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 30 کروڑ ہے اور پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی پانچ فی صد سے بھی کم ہے، یہ ایک خطرناک صورتِ حال ہے۔

ان کے مطابق وزیرِ اعظم نریندر مودی کانگریس سے پاک بھار ت کی بات کرتے رہے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ تو مسلمانوں سے پاک بھارت کی بات کر رہے ہیں۔

تقریباً 40 سال سے پارلیمانی اجلاس کی کوریج کرنے والے سینئر صحافی اور تجزیہ کار معصوم مرادآبادی کہتے ہیں کہ کابینہ میں مسلم وزیر کی موجودگی پارلیمانی تاریخ کا حصہ رہی ہے اور یہ ایک روایت بھی رہی ہے۔ لیکن موجودہ حکومت نے اس روایت کو توڑ دیا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا اُن کا کہنا تھا کہ اس سے قبل 1977 میں بی جے پی جس حکومت میں شامل تھی اس میں بی جے پی کے کوٹے سے دو مسلم ایم پی سکندر بخت اور عارف بیگ وزیر بنائے گئے تھے۔ پھر جب 1998 میں واجپئی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت بنی تو کابینہ میں سکندر بخت اور سید شاہنواز حسین کو شامل کیا گیا تھا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ پہلے بی جے پی مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتی تھی اور اسی لیے وہ کچھ مسلمانوں کو ٹکٹ بھی دیتی اور انہیں کابینہ میں وزیر بھی بناتی تھی۔ لیکن موجودہ بی جے پی کو مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ ان کے ووٹ کے بغیر بھی زبردست کامیابی حاصل کر رہی ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت دنیا کو دکھانے کے لیے ہی سہی، کابینہ میں مسلمانوں کو نمائندگی ضرور دیتی تھی۔ لیکن نیلم مہاجن سنگھ کہتی ہیں کہ بی جے پی میں مسلمانوں کی موجودگی علامتی رہی ہے۔ ان کو بااختیار بنانے کی خواہش کبھی بھی بی جے پی کی نہیں رہی۔

معصوم مرادآبادی اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ چونکہ بی جے پی کے ایجنڈے میں مسلمان شامل نہیں ہیں اور یہ حکومت ملک میں ایک سیکولر آئین کے باوجود کھلے عام ہندوتو اور ہندو اسٹیٹ کے قیام کی بات کرتی ہے لہٰذا یہ صورت حال چونکانے والی نہیں ہے۔

ان کے مطابق مختار عباس نقوی بی جے پی کے شو بوائے ہیں۔ کابینہ میں ان کی موجودگی سے بھی مسلمانوں کے مسائل کم نہیں ہوئے۔ یہ حکو مت ملک کی دوسری بڑی آبادی کو نظرانداز کرکے اپنا کام کر رہی ہے۔

بی جے پی رہنماؤں کی جانب سے یہ شکایت کی جاتی رہی ہے کہ بی جے پی مسلمانوں کو تو اپنے قریب لانے کی کوشش کرتی ہے لیکن مسلمان بی جے پی کے قریب نہیں جاتے۔

لیکن بی جے پی کی سرپرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کو قریب سے جاننے والی نیلم مہاجن سنگھ کا کہنا ہے کہ بی جے پی کو آر ایس ایس کی وجہ سے سیاسی عروج حاصل ہوا اور آر ایس ایس مسلمانوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں ناکام رہی۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ کابینہ میں مسلمانوں کی نمائندگی کے خاتمے کا عالمی سطح پر ایک غلط پیغام جائے گا۔ اس لیے امید ہے کہ بی جے پی کسی نہ کسی مسلمان کو اپنا ایم پی بنائے گی اور اسے وزارت میں بھی لے گی۔

اس سلسلے میں نیلم مہاجن سنگھ کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریند رمودی کے خلیجی اور مسلم ملکوں کے حکمرانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں، لہٰذا اس کی توقع کی جانی چاہیے کہ وہ جلد ہی راجیہ سبھا میں مسلمانوں کو نمائندگی دیں گے اور صدر کی جانب سے کسی مسلمان کو راجیہ سبھا کے لیے نامزد کیا جائے گا۔

معصوم مرادآبادی کے خیال میں اگر حکومت کابینہ میں کسی مسلمان کو شامل بھی کرے گی تو اس کی حیثیت حسب روایت نمائشی ہی ہوگی۔ کیونکہ یہ حکومت اس کی قطعاً پروا نہیں کرتی کہ اس کے کسی فیصلے پر عالمی ردعمل ہو سکتا ہے۔ اس کی متعدد مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

بی جے پی کی جانب سے مسلمانوں یا اقلیتوں کو نظرانداز کرنے یا ان کے ساتھ ناانصافی کرنے کے الزامات کی تردید کی جاتی رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کا نعرہ سب کا ساتھ سب کا وکاس یعنی ترقی اور سب کا اعتماد ہے۔ اس میں مسلمان بھی شامل ہیں۔

بی جے پی اقلیتی شعبے کے صدر جمال صدیقی کا اصرار ہے کہ سیاست کو مذہب سے جوڑ کر نہیں دیکھنا چاہیے۔ عوام اپنے سیاسی نمائندوں کو منتخب کرتے ہیں مذہبی نمائندوں کو نہیں۔

انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہمارے مذہب یا برادری کا کوئی شخص وزارت میں نہیں ہے تو کیا ہوا، ہمارے ملک کے لوگ تو ہیں۔ بی جے پی میں ذمہ داریاں تبدیل ہوتی رہتی ہیں اور انہیں امید ہے کہ پارٹی تمام برادریوں کی نمائندگی کو یقینی بنائے گی۔

بھارت میں حالیہ دنوں میں بی جے پی رہنما نوپور شرما کے متنازع بیانات کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
بھارت میں حالیہ دنوں میں بی جے پی رہنما نوپور شرما کے متنازع بیانات کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔


بی جے پی رہنماوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کی حکومت تمام مذاہب اور تمام طبقات کے لیے کام کرتی ہے۔ اس کی فلاحی اسکیمیں سب کے لیے ہوتی ہیں۔ وہ مذہب کی بنیاد پر تفریق میں یقین نہیں رکھتی۔

اس وقت بہار کی بی جے پی اور جے ڈی یو کی مخلوط حکومت اور یو پی کی بی جے پی حکومت میں ایک ایک مسلم وزیر ہیں۔

سیاسی حلقوں میں ایسی قیاس آرائی کی جا رہی ہے کہ مختار عباس نقوی کو دوبارہ راجیہ سبھا کا رکن نہ بنانے اور کابینہ میں نہ رکھنے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ حکومت شاید انہیں نائب صدر کا امیدوار بنانا چاہتی ہے۔ تاہم اس معاملے میں حکومت یا بی جے پی کی جانب سے کوئی اشارہ نہیں دیا گیا ہے۔

نائب صدر کا انتخاب چھ اگست کو ہوگا۔ موجودہ نائب صدر ایم وینکیا نائڈو کی مدت دس اگست کو ختم ہو رہی ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG