رسائی کے لنکس

بھارت: کیا کانگریس 'نرم ہندوتوا' کی پالیسی اختیار کر رہی ہے؟


INDIA-POLITICS/
INDIA-POLITICS/

بھارت کی اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما ششی تھرور کا اقلیتوں کے مسائل سے متعلق بیان موضوع بحث بنا ہوا ہے جس میں انہوں نے اپنی ہی پارٹی پر تنقید کی ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق ششی تھرور کے بیان پر بحث اس لیے ہو رہی ہے کیوں کہ ان کے بقول کانگریس نے سیکولرزم کے اپنے بنیادی نظریے کو خیرباد کہہ دیا ہے۔

بھارت کی اپوزیشن جماعت کانگریس کا 85 واں اجلاس ریاست چھتیس گڑھ کے دارالحکومت رائے پور میں اتوار کو ختم ہوا۔ اس اجلاس میں جو قرار دادیں منظور کی گئی ان سے واضح ہوتا ہے کہ کانگریس 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے اور اس کے لیے اسے دیگر ہم خیال جماعتوں سے اتحاد کرنے میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

اجلاس میں مختلف ریاستوں سے تقریباً 15 ہزار مندوبین نے شرکت کی اور سیاسی، معاشی، سماجی اور بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال کیا۔ اجلاس کے دوران مختلف امور پر متعدد قرار دایں بھی منظور کی گئیں۔

کانگریس پارٹی کے صدر ملک ارجن کھڑگےنے اپنی تقریر میں مودی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس آئین کے تحفظ کی لڑائی لڑنے کے عہد کی پابند ہے۔

یہ اجلاس کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کے بعد ہوا ہے۔ راہل گاندھی نے اپنی تقریر میں نفرت کی سیاست کے خلاف لڑائی کے عہد کا اعادہ کیا۔

انہوں نے معیشت، بھارت اور چین کی کشیدگی، گوتم اڈانی تنازع اور دیگر معاملات پر مرکزی حکومت پر تنقید کی۔ لیکن سینئر رہنما اور رکن پارلیمنٹ ششی تھرو ر کی تقریر کو میڈیا میں زیادہ جگہ ملی۔

ملک ارجن کھڑگے کے خلاف پارٹی کی صدارت کا الیکشن لڑنے والے ششی تھرور نے اقلیتوں کے مسائل پر خاموشی اختیار کرنے پر اپنی ہی پارٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

مبصرین کے مطابق اقلیتوں کے مسائل پر چپ رہنے اور کھل کر مؤقف اختیار نہ کرنے کا معاملہ پارٹی کے اندر وقتاً فوقتاً اٹھتا رہا ہے۔ لیکن عوامی طور پر اس بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آتا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلا موقع تھا جب پارٹی کے کسی سینئر رہنما نے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے معاملے پر کوئی واضح مؤقف اختیار نہ کرنے کے خلاف عوامی سطح پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

ششی تھرور نے اپنی سات منٹ کی تقریر میں دو ٹوک انداز میں کہا کہ پارٹی کو اپنے سیکولرزم کے بنیادی نظریے، تکثیریت اور ملک کے مذہبی و ثقافتی تنوع کے تحفظ کے معاملے میں کھل کر سامنے آنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اس ڈر سے کہ اکثریت کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی اور وہ ہم سے الگ ہو جائیں گے، بعض معاملات میں کوئی مؤقف اختیار نہ کرنا یا ان کو ہلکا کرکے پیش کرنا دراصل بی جے پی کے ہاتھوں میں کھیلنا ہے۔

ان کے بقول پارٹی کو بلقیس بانو کے معاملے، گائے کے تحفظ کے نام پر قتل، بلڈوزر سے مسلمانوں کے مکانوں کے انہدام اور اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملوں کے خلاف مزید کھل کر بولنا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ لوگ بھی ملک کے شہری ہیں اور اپنی حمایت کے لیے ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ اگر ہم ان کے لیے نہیں بولیں گے تو ملک کی تکثیریت اور مذہبی و ثقافتی تنوع کے لیے کھڑے ہونے کی اپنی ذمہ داری کو سرینڈر کردیں گے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ششی تھرور کے اس بیان پر بحث ہو رہی ہےکیوں کہ ان کے بقول کانگریس نے سیکولرزم کے اپنے بنیادی نظریے کو خیرباد کہہ کر بی جے پی کا مقابلہ کرنے کے لیے 'نرم ہندوتوا' کی پالیسی اختیار کر لی ہے۔

کارواں میگزین کے ایڈیٹر اور سینئر صحافی و تجزیہ کار ہرتوش سنگھ بل کا کہنا ہے کہ ہم بہت پہلے سے یہ معاملہ اٹھا رہے ہیں کہ کانگریس نرم ہندوتوا کے سہارے سیاسی کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ کانگریس پارٹی اپنے بنیادی نظریے سے بھٹک گئی ہے جس کی وجہ سے اس کے اندر بہت سی خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں۔

راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا؛ کیا مقاصد حاصل ہوگئے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:57 0:00

ان کے بقول ششی تھرور نے جو کہا ہے وہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے ورنہ کانگریس کے اندر اور بھی بڑے بڑے مسائل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کانگریس اس خوف سےاقلیتوں کے مسائل پر کوئی مؤقف اختیار نہیں کرتی کہ اگر وہ بولے گی تو وہ اونچی ذات کے ہندو ووٹوں سے محروم ہوجائے گی۔ حالانکہ نہ بولنے کی صورت میں بھی اسے یہ ووٹ نہیں ملیں گے۔

ہرتوش سنگھ بل کے بقول ششی تھرور سے پہلے بھی پارٹی کے اندر ایسی باتیں اٹھتی رہی ہیں۔ پارٹی پر جب سے راہل گاندھی کا کنٹرول ہوا ہے اس قسم کی خرابیاں زیادہ آگئی ہیں۔

ایک اور تجزیہ کار بھی اس کی تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ راہل گاندھی بوقت ضرورت یہ بتانا نہیں بھولتے کہ وہ بھی ہندو ہیں۔

واضح رہے کہ بی جے پی کے آنجہانی رہنما اور سابق وزیر ارون جیٹلی نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ کانگریس خود کو ہندو پارٹی ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن جب ایک اصلی ہندو پارٹی بی جے پی پہلے سے موجود ہے تو کوئی نقلی ہندو پارٹی کی طرف کیوں جائے گا۔

مولانا آزاد کی تصویر پر تنازع

اجلاس کے دوران ایک اور معاملہ سرخیوں میں رہا اور اس کی وجہ سے بھی کانگریس پر تنقید کی جا رہی ہے۔اجلاس کے موقع پر جاری کیے گئے ایک اشتہار میں کانگریس کے متعدد رہنماؤں کی تصاویر تھیں مگر کانگریس کے سابق صدر، مجاہد آزادی اور ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کی تصویر غائب تھی۔

اس پر سوشل میڈیا اور اخبارات میں احتجاج کیا گیا اور سیاسی و عوامی حلقوں کی جانب سے بھی کانگریس پر تنقید کی گئی۔

سینئر کانگریس رہنما جے رام رمیش نے اسے پارٹی کی غلطی مانتے ہوئے معافی مانگی اور کہا کہ جس سے بھی یہ غلطی ہوئی ہے اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ اس کے بعد ہی اجلاس کے اسٹیج کی پشت پر ایک بڑا بورڈ آویزاں کیا گیا جس میں مولانا آزاد کی تصویر بھی تھی۔

سابق کانگریس رہنما غلام نبی آزاد نے کانگریس کے اشتہار میں مولانا آزاد کی تصویر کی عدم شمولیت پر ایک ٹوئٹ میں کہا کہ جب سے انہوں نے کانگریس پارٹی چھوڑی ہے، کانگریس بی جے پی بنتی جا رہی ہے۔

اس پر جے رام رمیش نے ٹوئٹ کرتے ہوئے ان کے الزام کی تردید کی اور طنز کرتے ہوئے کہا کہ ''مولانا ابوالکلام آزاد نے کانگریس کے ساتھ غداری نہیں کی تھی مسٹر آزاد۔ کیا آپ نے اسٹیج کا پس منظر دیکھا جس میں مولانا آزاد کو نمایاں انداز میں دکھایا گیا ہے۔''

مولانا آزاد اکیڈمی نئی دہلی کے چیئرمین مفتی عطاءالرحمن قاسمی نے مولانا آزاد کی تصویر کی عدم شمولیت پر اظہار افسوس کیا اور کہا کہ یہ کام شعوری طور پر ہوا ہے یا غیر شعوری طور پر ناقابل معافی ہے۔

کانگریس کی تردید

کانگریس کی جانب سے نرم ہندوتو ا کے الزام کی پہلے بھی تردید کی جاتی رہی ہے اور ایک بار پھر اس کی تردید کی گئی ہے۔

پارٹی کے ترجمان اور سینئر رہنما میم افضل کا کہنا ہے کہ ششی تھرور نے جو باتیں کہی ہیں ان پر پارٹی کے اندر بھی گفتگو ہوتی رہی ہے۔ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ کوئی بھی بیان دینے یا قدم اٹھانے میں احتیاط کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اگر اقلیتوں کے لیے آواز بلند کی جاتی ہے تو سنگھ پریوار اس معاملے کو اتنا اچھالنے لگتا ہے کہ خود اقلیتوں کا ہی نقصان ہوتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ کانگریس کو اقلیتوں کے مسائل سے دلچسپی نہیں رہی۔

ان کے مطابق آر ایس ایس اور بی جے پی نے اس وقت جو ماحول بنا دیا ہے اس میں بہت سوچ سمجھ کر بولنے کی ضرورت ہے اور کانگریس بی جے پی کو کوئی ایسا موقع دینا نہیں چاہتی کہ وہ کسی بھی بیان کا غلط فائدہ اٹھائے۔

انہوں نے کہا کہ کانگریس کی سربراہی میں اتحاد یو پی اے نے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی سماجی، معاشی اور تعلیمی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے سچر کمیٹی بنائی تھی اور اس کی رپورٹ کی روشنی میں اقلیتوں کی بہبود کے لیے متعدد اقدامات کیے تھے۔ اس لیے یہ کہنا کہ کانگریس اقلیتوں کے مسائل سے دلچسپی نہیں رکھتی اور نرم ہندوتوا کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے غلط ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG