رسائی کے لنکس

خیبر پختونخوا کی نابینا طالبات ثانوی تعلیم سے محروم


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پشاور میں نابینا لڑکیوں کے لئے پرائمری اسکول موجود ہے مگر وہاں صرف 25 طالبات تعلیم کرسکتی ہیں۔

خیبر پختونخوا کی کئی نابینا لڑکیوں کا کہنا ہے کہ وہ 'امتیازی سلوک' کا شکار ہیں کیوں کہ انھیں ثانوی تعلیم تک رسائی نہیں دی جا رہی ہے۔ بینائی سے محروم بہت سی طالبات اسکول چھوڑنے پر مجبور ہیں کیونکہ صوبے میں ان کے لیے پرائمری اسکولز تو موجود ہیں لیکن کوئی ہائی اسکول موجود نہیں ہے۔

ایک نابینا طالبہ سیما کہتی ہیں کہ "ہم نے کئی بار حکام سے بات کی مگر وہ آتے ہیں اور صرف تقریریں کرکے چلےجاتے ہیں۔ پھر واپس نہیں آتے انھیں ہماری پرواہ نہیں ہے اور ہم سے گریز کرتے ہیں۔"

پشاور میں نابینا لڑکیوں کے لئے پرائمری اسکول موجود ہے مگر وہاں صرف 25 طالبات تعلیم کرسکتی ہیں۔

اسکول میں کلاسز بھی بہت تاخیر سے شروع ہوتی ہیں۔ دس سال کی عمر سے لڑکیاں بنیادی تعلیم حاصل کرنا شروع کرتی ہیں جبکہ 16 برس کی عمر تک صرف پانچ جماعتیں مکمل کرپاتی ہیں۔

انھیں طالبات میں سے ایک لائبہ بھی سخت مشکل میں ہے کہ یا تو وہ کئی سو کلومیٹر کا سفر طے کرکے دوسرے صوبے جاکر تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے یا گھر بیٹھ جائے۔

لائبہ کا کہنا ہے کہ میرے والد کے بقول یہ اسکول صرف پانچ جماعت تک ہے اگر دسویں جماعت تک کلاسیں بڑھ جائیں تو ہی تم اپنی مزید تعلیم جاری رکھ پاؤ گی ورنہ تمھیں اپنی تعلیم چھوڑنا ہوگی۔"

لعل بہادر کی تین بیٹیاں ہیں۔ تینوں بینائی سے محروم ہیں۔ حالانکہ نابینا لڑکوں کے لئے قریب میں اسکول موجود ہے مگر وہاں لڑکیوں کے جانے پر پابندی ہے۔

وہ اپنی بیٹیوں کسی دوسرے صوبے بھیج کر تعلیم دلانے کی سکت نہیں رکھتے۔ لعل بہادر کا مطالبہ ہے کہ صوبائی حکومت ان بچیوں کے لئے صوبے میں ہی ثانوی تعلیم کا انتظام کرے۔

لعل بہادر کا کہنا ہے، "میں بوڑھا ہورہا ہوں۔ ان بچیوں کو اپنے یا کسی دوسرے پر انحصار کرنے دینا نہیں چاہتا۔ میرا مقصد اپنی بیٹیوں کو خودمختار بنانا ہے۔"

پاکستان کا شمار خواندگی کے اعتبار سے دنیا میں کم ترین شرح رکھنے والے ممالک میں ہوتا ہے جہاں صرف 30 فیصد بچے ہی اسکول جاتے ہیں۔

خیبر پختونخوا کی نابینا طالبات اور بھی کئی مسائل کا شکار ہیں۔ صوبے میں کوئی بریل پرنٹنگ پریس نہ ہونے کی وجہ سے اساتذہ اپنے ہاتھوں سے کتابیں بنانے پر مجبور ہیں۔

عابدہ نسرین ایک نابینا استاد ہیں جو کہتی ہیں کہ "ہم پرانی کتابیں لیتے ہیں جسے بینائی والا شخص اونچی آواز میں پڑھ کر سناتاہے ہم اسے بریل میں تبدیل کرکے لکھ لیتے ہیں۔"

یہ بہت مشکل عمل ہے ہزاروں نقطوں کو کاغذ پر بنانا مگر اساتذہ کا یہ جذبہ قابل تحسین ہے۔

شاہدہ گل بھی ایک نابینا استاد ہیں جو ان لڑکیوں کو تعلیم دے رہی ہیں۔ ان کے بقول، "ہم نابینا خواتین کئی مشکلات کا سامنا کرتی ہیں کیونکہ ہمارے حقوق کا تحفظ نہیں کیا جاتا۔ حتی کہ ہمیں اپنے حق لینے کیلئے عدالت تک جانا پڑجاتا ہے۔"

خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی جانب سے محکمہ بہبود کے نئے وزیر کی تعیناتی کے بعد اسکول کے ہیڈماسٹر پرامید ہیں کہ حکومت اس اسکول میں کلاسز کا اضافہ کرے گی اور وہ ثانوی تعلیم کے کورسز پڑھا سکیں گے۔

ہیڈماسٹر یونس آفریدی کہتے ہیں کہ تمام کاغزی کاروائی مکمل ہوچکی ہے اور اسکول میں مزید جماعتوں کی تعمیر کا کام دو سے تین ماہ میں شروع کردیا جائے گا۔"

لیکن یہ نابینا طالبات اس سے قبل بھی کئی وعدے سن چکی ہیں۔ اور اب یہ اس وقت تک مطمئن نہیں ہوں گی جب تک وہ اپنے اسکول میں نئی کلاسز کے تعمیر ہونے کی آوازیں نہیں سن لیتیں۔

(بہ شکریہ ریڈیو فری یورپ/ ریڈیو لبرٹی)

XS
SM
MD
LG