رسائی کے لنکس

نیپالی ارب پتی کا گھر، اسکول تعمیرِ کرنے کا عزم


فائل
فائل

حکومت نیپال کے مطابق، 600 سے زائد اسکول منہدم ہوئے، جب کہ 300000 گھر تباہ ہوگئے یا پھر رہائش کے قابل نہیں رہے۔۔۔ ادھر، بنود چودھری کو توقع ہے کہ اگلے چھ ماہ کے اندر، اُن کے گروپ کی جانب سے فراہم کردہ رقوم سے کم از کم 100 اسکول؛ اور 1000 عارضی گھر مکمل ہو جائیں گے

نیپال میں ایک ہی ارب پتی ہے۔ اپنے ملک میں آنے والے تباہ کُن زلزلے کے بعد، اِس ارب پتی شخص نے گھروں اور اسکولوں کی تعمیر نو کا عہد کیا ہے۔

بنود چودھری،’سی جی کور اینڈ چودھری گروپ نیپال‘ کے سربراہ ہیں۔ اُنھوں نے ملک کو درپیش سنگین چیلنجوں کے بارے میں ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے تفصیل بتائیں کہ وہ کس طرح سے ملک کی مدد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

بقول اُن کے، ’شاید یہ نیپال کی تاریخ میں سب سے بڑی آزمائش ہے‘۔

چودھری گروپ نیپال کےدارالحکومت کٹھمنڈو سے باہر قائم ایک بہت بڑا ادارہ ہے، جس میں تقریباً 80 کاروبار شامل ہیں، جن کی سالانہ آمدن 80 کروڑ ڈالر ہے۔

اُن کا شمار دنیا کے 1500 امیر ترین شخصیات میں ہوتا ہے۔ بنود چودھری کو نیپالی ہونے پر فخر ہے، اور کہتے ہیں کہ اُنھیں ملک کی خدمت کا ایک موقع میسر آیا ہے۔

بنود چودھری کے بقول، ’ہمیں یہ توقع ہے کہ بہت جلد ہم ایسے ساجھے دار تلاش کرلیں گے جو 10000 گھر تعمیر کرنے کے ہدف میں ہم سے تعاون کریں، جس کا ہم ارادہ رکھتے ہیں۔ ہمیں توقع ہے کہ ہم نہ صرف 100 اسکولوں کو دوبارہ تعمیر کرائیں گے، بلکہ اس عدد سے کہیں زیادہ اسکول بحال کرنے میں مدد کر پائیں گے‘۔

’اپنی مدد آپ‘ کے تحت سرگرم عمل ایک نیپالی خاندان
’اپنی مدد آپ‘ کے تحت سرگرم عمل ایک نیپالی خاندان

اُن پارٹنرز کے ناموں کی تصدیق کرتے ہوئے، چودھری نے ’پرائیس واٹر ہاؤس فاؤنڈیشن’، ’سیڈس انڈیا‘، ٹاٹا گروپ اور علی بابا گروپ کے نام لیے۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ زلزلے کے نتیجے میں، 80 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں، جو نیپال کی آبادی کی ایک تہائی کے برابر ہے۔

جس وقت زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوئے، کیشوا کورائلہ، ’ہمالین ٹائمز‘ کے ڈجیٹل ایڈیٹر، اپنے اپارٹمنٹ میں موجود تھے۔

بقول اُن کے، ’ہر ایک پر خوف طاری ہوگیا۔ زلزلہ مسلسل 30 یا 40 سیکنڈ تک جاری رہا، پھر میں نے محسوس کیا کہ یہ معمولی نوعیت کا زلزلہ نہیں تھا‘۔

جس وقت عمارت میں ابھی لرزہ جاری تھا، اُن کی بہن کی گود میں ایک سات ماہ کا ایک بچہ تھا۔

اُنھوں نے بتایا کہ ’میں نے بہن کے ہاتھوں سے بچے کو جھپٹ لیا اور صوفے کے نیچے جا چھپا، اس غرض سے کہ اگر گھر گر بھی جائے تو بچہ محفوظ رہے۔ بچنے کی امید تو کوئی نہیں تھی۔ بس، قسمت نے بچا لیا‘۔

باجود اس بات کے کہ یہ ایک اذیت ناک لمحہ تھا، کشیوا اور اُن کے اہل خانہ اُن چند خوش نصیبوں میں سے تھے، جو بچ گئے۔ اُن کا گھر منہدم ہونے سے بچا اور اُن کا خاندان سلامت ہے۔

لیکن، کٹھمنڈو کے ایک بورڈنگ اسکول کو جیسے زمین نگل گئی۔

اسکول کی پانچ عمارات میں سے صرف دو باقی رہ گئی ہیں۔

اسکول میں 70 طالب علم رہتے تھے جو اب اِدھر اُدھر چلے گئے ہیں۔ اس اسکول کے 540 بچوں کو ابھی تک یہ نہیں معلوم کہ وہ کب اسکول لوٹیں گے۔


حکومت نیپال کے اندازے کے مطابق، 600 سے زائد اسکول منہدم ہوئے، جب کہ 300000 گھر تباہ ہوئے یا پھر زلزلے میں تباہی کے باعث رہائش کے قابل نہیں رہے۔

چودھری گروپ وہ پہلی تنظیم تھی جس نے زلزلے کے فوری بعد کٹھمنڈو میں بچاؤ اور امداد کے کام میں سرگرم حصہ لیا۔


سنہ 2010 میں جب چلی میں زلزلہ آیا، تو چودھری کے گروپ نے اس جنوبی امریکی براعظم کے ملک میں بچاؤ اور امداد کے کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ یہ تاریخ کا چھٹا بڑا زلزلہ تھا۔


بنود چودھری کو توقع ہے کہ اگلے چھ ماہ کے اندر، اُن کے گروپ کی جانب سے فراہم کی گئی رقوم سے کم از کم 1000 عارضی گھر مکمل ہوچکے ہوں گے۔

XS
SM
MD
LG