رسائی کے لنکس

بھارت کے چیف جسٹس کے خلاف تحریک مواخذہ کا نوٹس مسترد


بھارت کے چیف جسٹس دیپک مشرا۔ فائل فوٹو
بھارت کے چیف جسٹس دیپک مشرا۔ فائل فوٹو

اپوزیشن پارٹیوں نے چیف جسٹس دیپک مشرا پر الزام لگایا ہے کہ اُنہوں نے اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے سیاسی طور پر حساس کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔

نائب صدر اور راجیہ سبھا کے چیئرمین ایم وینکیا نائڈو نے چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس دیپک مشرا کے خلاف تحریک موخدہ کا نوٹس مسترد کر دیا۔ یہ نوٹس کانگریس سمیت حزب اختلاف کی سات جماعتوں نے جمعہ کے روز دیا تھا اور اس پر 71 ارکان پارلیمنٹ کے دستخط تھے۔

اپوزیشن پارٹیوں نے چیف جسٹس دیپک مشرا پر الزام لگایا ہے کہ اُنہوں نے اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے سیاسی طور پر حساس کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔

یہ غیر معمولی اقدام اُس وقت سامنے آیا جب سپریم کورٹ کے چار ججوں نے چیف جسٹس کے رویے پر کھلے عام تشویش کا اظہار کیا۔

نائڈو نے آئینی ماہرین، حکومت کے قانونی افسران اور راجیہ سبھا کے سابق سکریٹری جنرل افراد سے مشورے کے بعد مواخذے کا مطالبہ مسترد کر دیا۔ بھارتی عدلیہ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب چیف جسٹس کے خلاف تحریک موخذہ کا نوٹس دیا گیا۔

نائب صدر نے کہا کہ نوٹس کا مطالعہ کرنے اور آئینی ماہرین سے مشورہ کے بعد میں قطعیت سے محسوس کرتا ہوں کہ نوٹس ناقابل قبول ہے۔ چیف جسٹس کی مبینہ بد اخلاقی اور نااہلی کے بارے میں نوٹس میں ٹھوس اور معتبر اطلاعات نہیں ہیں۔ اس معاملے کو طول دینا ضروری نہیں، لہٰذا اسے خارج کیا جاتا ہے۔

کانگریس نے اس فیصلے کی مخالفت کی اور اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل، سابق وزیر قانون اور سینئر کانگریس لیڈر کپل سبل نے ایک نیوز کانفرنس میں نائب صدر کے فیصلے کو غیر آئینی اور عجلت میں اٹھایا گیا قدم قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ آئینی طور پر تحقیقاتی کمیٹی کی جانچ کے بعد ایسا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔

کانگریس کے ترجمان میم افضل نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نائب صدر دہلی سے باہر تھے لیکن وہ اپنا دورہ درمیان ہی میں چھوڑ کر آگئے اور اس فیصلے کا اعلان کر دیا جو کہ غیر قانونی ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ معاملہ چیف جسٹس آف انڈیا سے تعلق رکھتا ہے اور کانگریس سپریم کورٹ میں اس کو چیلنج کرے گی توکیا آپ لوگوں کو امید ہے کہ نائب صدر کے قدم کے خلاف کوئی فیصلہ آئے گا تو انھوں نے کہا کہ درخواست سپریم کورٹ میں داخل کی جاتی ہے چیف جسٹس کے پاس نہیں۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ چیف جسٹس ہی بنیادی طور پر یہ طے کرتے ہیں کہ روسٹر کے تحت اور موضوع کے اعتبار سے کس بینچ کو کیس سونپا جائے۔ ہم ان سے امید رکھتے ہیں کہ جب وہ اس معاملے میں خود ملوث ہیں تو غیر جانبداری کا تقاضہ ہے کہ وہ اس کیس کو کسی دوسرے جج کے حوالے کریں گے۔

بی جے پی رہنماؤں نے نائب صدر کے فیصلے کا خیر مقدم کیا اور الزام لگایا کہ کانگریس آئینی و جمہوری اداروں کو کمزور کرتی رہی ہے۔

لیکن حکومت کی ایک حلیف جماعت شیو سینا کے لیڈر اروند ساونت نے نائب صدر کی جانب سے عجلت میں فیصلہ کرنے پر اظہار حیرت کیا اور کہا کہ ان کو اتنی جلدی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ان کا یہ قدم سیاسی ہے۔

لیکن ایک سینئر وکیل اور سابق اٹارنی جنرل سولی سوراب جی نے نائڈو کے فیصلے کا خیرمقدم کیا اور اسے ایک درست قدم قرار دیا۔ انھوں نے تحریک کا نوٹس دینے پر بھی اپنی ناپسندیدگی ظاہر کی تھی۔

نوٹس دیے جانے سے ایک روز قبل چیف جسٹس کی سربراہی والے بینچ نے جسٹس بی ایچ لویا کی پراسرار موت کی جانچ سے متعلق مفاد عامہ کی متعدد درخواستیں خارج کرتے ہوئے جسٹس لویا کی موت کو فطری قرار دے کر تحقیقات کرانے سے انکار کر دیا تھا۔

جسٹس لویا سہراب الدین فرضی اینکاونٹر معاملے کی سماعت کر رہے تھے جس میں بی جے پی کے صدر امت شاہ ملزم تھے۔ اسی دوران ایک شادی کی تقریب میں جسٹس لویا کی موت ہو گئی تھی۔ حزب اختلاف اور انسانی حقوق کے بہت سے کارکنوں کے نزدیک ان کی موت مشتبہ ہے۔ ان کے بعد آنے والے جج نے امت شاہ کو بری کر دیا تھا۔

ایک سابق جج جسٹس محمد سہیل اعجاز صدیقی نے، جو کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار جنرل بھی رہ چکے ہیں، وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے تحریک مواخدہ کو افسوسناک قرار دیا اور اسے حساس معاملہ قرار دیتے ہوئے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارتی عدلیہ کو بیرونی ممالک میں بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اسے بہت جرات مند عدلیہ مانا جاتا ہے۔ جتنی مضبوط ہماری عدلیہ تھی، اتنی تو امریکہ کی بھی نہیں ہوگی۔ لیکن اب اس کی غیر جانبداری اور اس کی جرات مندی پر جو سوالیہ نشان لگائے جانے لگے ہیں وہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ ایسا ہونا نہیں چاہیے۔ اس سے ہمارے ملک اور یہاں کی عدلیہ کے وقار پر حرف آتا ہے۔

وزیر مالیات ارون جیٹلی نے اسے حزب اختلاف کا ایک سیاسی حربہ اور عدلیہ کی آزادی کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے جج کا مواخذہ اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جب وہ نااہل ہو یا اس کی بد اخلاقی ثابت ہو چکی ہو۔

خیال رہے کہ چیف جسٹس کے طریقہ کار کے خلاف سپریم کورٹ کے سینئر ترین چار ججوں نے ایک غیر معمولی نیوز کانفرنس کی تھی اور عدلیہ کے وقار کے تحفظ پر زور دیا تھا۔

سینیارٹی میں چیف جسٹس کے بعد آنے والے جسٹس چیلامیشور نے متعدد بیانات میں کہا ہے کہ عدلیہ اور جمہوریت دونوں خطرے میں ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG