رسائی کے لنکس

نوجوانوں کی ذہنی صحت میں سوشل میڈیا کا کردار


رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک طرف سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس نے دوسروں کے ساتھ مربوط ہونے اور تعلقات بڑھانے کا ایک اضافی طریقہ فراہم کیا ہے لیکن وہیں یہ ممکنہ طور پر سائبر غنڈہ گردی، سماجی رقابت اور تنہائی کا ایک ذریعہ بھی ہے۔

سماجی روابط کی ویب سائٹس نے جہاں فاصلوں کے احساس کو کم کر دیا ہے وہیں اس کے وسیع منفی اثرات سے بچے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔

اس حوالے سے شائع ہونے والی ایک تازہ ترین رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پر زیادہ وقت گزارنے والے بچوں کی جذباتی اور سماجی نشو و نما میں تاخیر ہو سکتی ہے، کیونکہ وہ زیادہ وقت مجازی دنیا میں گزارتے ہیں۔

برطانیہ کے قومی شماریات کے دفتر سے منگل کو جاری ہونے والی رپورٹ 'بچوں کی فلاح و بہبود 2015 ' میں ماہرین نے واضح کیا ہے کہ بچوں کے بیمار ذہنی صحت کا ان کی مجموعی صحت پر فوری یا طویل مدتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک طرف سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس نے دوسروں کے ساتھ مربوط ہونے اور تعلقات بڑھانے کا ایک اضافی طریقہ فراہم کیا ہے لیکن وہیں یہ ممکنہ طور پر سائبر غنڈہ گردی، سماجی رقابت اور تنہائی کا ایک ذریعہ بھی ہے۔

مطالعاتی جائزہ ایک سروے کی بنیاد پر مرتب کیا گیا جس میں ماہرین نے بچوں کی طرف سے جمع کرائےجانے والے ایک سوالنامے کے جوابات کی روشنی میں بچوں کی ذہنی صحت کا جائزہ لیا۔

نتائج کے مطابق سماجی روابط کی ویب سائٹس پر زیادہ وقت گزارنے کا واضح طور پر ذہنی صحت کے مسائل کے ساتھ تعلق پایا گیا ہے۔

رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ اسکول کے دنوں میں سماجی روابط کی ویب سائٹس کا تین گھنٹے سے زیادہ استعمال کرنے والے بچوں میں دوسرے بچوں کے مقابلے میں ذہنی صحت کے مسائل میں مبتلا ہونے کا امکان دوگنا ہے۔

اسی طرح جو بچے ہر روز اپنا زیادہ وقت سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں ان میں جذباتی مسائل، ہائپر ایکٹیویٹی اور خراب رویہ پایا گیا ان بچوں کے مقابلے میں جو فیس بک ٹوئٹر یا اسنیپ چیٹ جیسی سوشل ویب سائٹس پر نہیں جاتے ہیں۔

اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2012-13ء میں 37 فیصد برطانوی بچے سوشل میڈیا پر وقت نہیں گزارتے تھے تاہم اب 56 فیصد بچے ہر روز تین گھنٹے سے زیادہ سماجی روابط کی ویب سائٹس کا استعمال کرتے ہیں۔

تقریباً 8 فیصد بچے جن کی عمریں 10 سے 15 برس کے درمیان تھیں اسکول کے دنوں میں تین گھنٹے سے زیادہ وقت فیس بک، ٹوئٹر اور اسنیپ چیٹ پر گزارتے ہیں جبکہ ان بچوں میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

2012-13ء​ میں لگ بھگ ہر دس میں سے ایک لڑکی یا 11 فیصد لڑکیوں نے تین گھنٹے سے زیادہ فیس بک کا استعمال کیا جبکہ ان کے مقابلے میں لڑکوں کا تناسب 20 میں سے ایک یا 5 فیصد تھا۔

جن بچوں کے سوشل ویب سائٹس کے استعمال کا دورانیہ تین گھنٹے سے زیادہ تھا ان میں سے 27 فیصد بچوں نے ذہنی مسائل اور جذباتی مشکلات کے حوالے سے اعلیٰ اسکور حاصل کیا۔

ان کی نسبت وہ بچے جو فیس بک کا استعمال نہیں کرتے تھے ان بچوں میں سے 12 فیصد نے ذہنی مسائل کی شکایت کی جبکہ فیس بک کا تین گھنٹے استعمال کرنے والے 11 فیصد بچوں میں ذہنی مسائل کی نشاندہی ہوئی۔

ایسے بچے جنھیں فیس بک پر تنگ کیا گیا تھا ان میں ذہنی صحت کے مسائل کا امکان چار گنا زیادہ تھا۔

علاوہ ازیں ایک تہائی بچے جو اپنی ظاہری شکل و صورت سے خوش نہیں تھے وہ ذہنی صحت کے مجموعی اسکور میں زیادہ نمبر لیے ان ہر 12 میں سے 1 بچے کے مقابلے میں جو اپنی شکل وصورت سے مطمئن تھے۔

ماہر نفسیات ڈاکٹر ہیلی وین زونبرگ کہتی ہیں کہ بچے ٹیکنالوجی پر حد درجے انحصار کرتے ہیں جبکہ انھیں انٹرنیٹ کے منفی اثرات کا احساس نہیں ہے سوشل میڈیا کے ضرورت سے زیادہ استعمال سے بچوں کی بات چیت کرنے کی صلاحیت، دوسروں کی باتیں غور سے سننے کی قابلیت اور ان کی ہمدردانہ رویے کو نقصان پہنچا ہے۔

انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بچے سوشل میڈیا پر لطائف، تصاویر اور ویڈیوز اپنے دوستوں کے ساتھ شئیر کرتے ہیں، بغیر ایک دوسرے سے بات چیت کیے ہوئے اور فوری طور پر تصاویر یا پوسٹ پر اپنا تبصرہ بھی ظاہر کر دیتے ہیں یہ جانے بغیر کہ ممکن ہے کہ ان کی رائے سے دوسری طرف ان کے دوستوں کے احساسات مجروح ہوئے ہوں۔

XS
SM
MD
LG