رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: مذہبی ضابطہٴاخلاق پر دستخط


فائل
فائل

اِس ضابطہٴاخلاق کے ماننے والے اعلان کر چکے ہیں کہ وہ متنازعہ امور سے پہلو تہی کرتے ہوئے کسی کو غیر مسلم قرار نہیں دیں گے، جو عام طور پر فسادات شروع کرنے کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے

پاکستانی مسلمانوں کے بڑے بڑے فرقوں کی 32 نمائیندہ تنظیوں نے ایک ضابطہٴاخلاق پر دستخط کئے ہیں، جس کی رُو سے مسجدوں کے لاؤڈ سپیکروں کے استعمال پر پابندیاں عائد کرنے کے علاوہ اشتعال انگیز لٹریچر اور دیواروں پر ایسے اشتہاروں کی ممانعت کی گئی ہے۔

’کرسچن سائینس مانٹر‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، سنہ 2012 کے دوران پاکستان میں فرقہ ورانہ تصادمو ں میں537 افراد جان سے مارے گئے، جو ایک پاکستانی ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق، سابقہ ایک سال کے مقابلے میں 71 فیصد زیادہ ہے۔

اِن مذہبی لیڈروں کی کوشش ہے کہ بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ تشدّد پر قابو پایا جائے۔

اخبار کہتا ہے کہ باوجودیکہ اس مقصد کے لئے کی جانے والی کوششوں کو سراہا جا رہا ہے۔ اس کے حصول کے بارے میں بہت زیادہ شکوک و شبہات ہیں۔


اس رضاکارانہ ضابطہٴاخلاق کا اعلان راولپنڈی شہر میں دسمبر میں اُن خونیں فسادات کے بعد کیا گیا تھا، جو شیعوں کے ایک جلوس اور ایک سنّی مدرسے کے طلبہ کے درمیان ہوئے تھے۔ اور ضابطہٴاخلاق کے منظور ہونے کے بعد بھی فرقہ وارانہ تشدد جاری رہا ہے۔

یکم جنوری کو ایران سے واپس آنے والے 2 شیعہ زائریں کو ایک خود کُش بمبار نے ہلاک کر دیا، جب کہ 3 جنوری کو اسلام آباد میں مسلّح افراد نےدو مقتدر سُنّی لیڈروں کو ہلاک کردیا۔ پچھلے ماہ، راولپنڈی اور کراچی میں شیعہ امام بارگاہوں میں جوابی کاروائی میں، دو شیعہ لیڈروں اور ایک سنّی لیڈر کو ہلاک کیا گیا تھا۔

اِس ضابطہٴاخلاق کے نفاذ کرانے والی پاکسان علماٴ کونسل کی سر براہی طاہر محمد اشرفی کر رہے ہیں، جو ایک وقت کالعدم جماعت سپاہ صحابہ کے رکن تھے۔اور، جو کہتے ہیں کہ اُن کی اپنی مثال سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی انتہا پسندوں میں تبدیلی آسکتی ہے۔ چنانچہ، اِس ضابطہٴاخلاق کے ماننے والے اعلان کر چکے ہیں کہ وہ متنازعہ امور سے پہلو تہی کرتے ہوئے کسی کو غیر مسلم قرار نہیں دیں گے،جو عام طور پر فسادات شروع کرنے کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے۔

احمدی فرقے کی مسجدوں کو انتہا پسند اکثر نشانہ بناتے ہیں۔ اُس کی طرف سے ضابطہٴ اخلاق پر کسی نے دستخط نہیں کئے ہیں۔ لیکن، اس میں کہا گیا ہے کہ گرجا گھروں اور مندروں کے ساتھ ان کی مسجدوں کو بھی تحفّظ فراہم کیا جائے گا۔

اخبار کہتا ہے کہ اس ضابطے پر دستخط کرنے والوں نے عہد کیا ہے کہ وہ پاکستان بھر میں کانفرنسیں منعقد کریں گے، تاکہ مذہبی روادای کو فروغ دیا جائے، اور پارلیمنٹ کے ارکان سے درخواست کریں گے کہ وہ اس ضابطہٴاخلاق کو قانونی شکل دیں، اور اسے نافذ کریں۔


اخبار کہتا ہے کہ اس کے نفاذ میں جو دشواریاں ہیں، اسلام آباد کی معروف دفاعی تجزیہ کار عائشہ صدّیقہ اُن پر کہتی ہیں، ہر چند کہ مختلف تنظیموں کے سربراہ ایک دوسرے کے خلاف لوگوں کو اُکسانے سے پرہیز بھی کریں، اُن کے عام ارکان کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ 1990ء کی دہائی میں قتل کی وارداتوں کے بعد جو مسلح شیعہ اور سُنّی تنظیمیں وجود میں آئیں، اُن کے ارکان پر قابو پانا مشکل ہے۔ حکومت نے لشکر جھنگوی اور سپاہ محمد تنظیوں کو ممنوع قرار دیا ہے۔ لیکن، دونوں سرگرمی سے وارداتیں کر رہی ہیں۔

لشکر جھنگوی کا دعویٰ ہے کہ پچھلے سال اُس نے شیعوں پر حملوں میں سینکڑوں افراد کو ہلاک کیا، اور جیسا کہ عائشہ صدیقہ کہتی ہیں، قرارداد کا95 فیصد عمل در آمد ہوتا ہے، جو مفقوُد ہے۔ چند ملا ایک اجلاس کے بعد لاکھ کہیں کہ وہ متفق ہیں، لیکن اس وقت تک بات نہیں، جب تک حکومت بھی اس میں شامل نہ ہو۔


بنگلہ دیش کے انتخابات کے بارے میں، اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ کہتا ہے کہ ملک کی حکمران پارٹی، عوامی لیگ فتح کے شادیانے منا رہی ہے، اُن ناقدین کو نظر انداز کرتے ہوئے، جو ان کے جواز کو چیلنج کر رہے ہیں۔ کیونکہ، ان میں تشدّد وا ہے، ووٹروں کی بہت کم تعداد نے ان میں شرکت کی، اور ملک کی سب سے بڑی مخالف جماعت نیشنل پارٹی نے اُن کا بائیکاٹ کیا ہے۔ عوامی لیگ نے پارلیمنٹ کی 300 نشستوں میں سے 232 حاصل کر لی ہیں۔

جُزوی نتائج کی بنیاد پر الیکشن کمشن نے انتخابات میں شرکت کرنے والے ووٹروں کا تناسُب 40 فی صد سے کُچھ کم بتایا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ امید کی جا رہی تھی کہ نتائج کے پیش نظر دونوں بڑی پارٹیاں انتخابات دوبارہ کرانے پر متفق ہونگی۔ لیکن، شیخ حسینہ نے سخت لہجے میں اعلان کیا ہے کہ وُہ اس وقت تک مزاکرات نہیں کریں گی، جب تک حزب اختلاف تشدد سے توبہ نہ کرے۔ اور اُنہوں نے فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ انتخابات کے بعد تشدّد کو سختی سے کُچل دے۔

اب تک انتخابی تشدد میں 29 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

اخبار کہتا ہے کہ اُس کے رپورٹر کو بڑی مشکل سے مخالف جماعت کی لیڈر خالدہ ضیاٴ سے ملنے کی اجازت دی گئی جو اپنے مکان میں محصور ہیں، اور جنہوں نے اُسےبتایا کہ اُن کا اندازہ ہے کہ بمشکل 10 فیصد ووٹروں نے انتخابات میں شرکت کی ہوگی۔

اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ بات چیت کے لئے تیار ہیں۔ لیکن، پہلے ان کے گرفتار کارکنوں کو تو رہا کیا جائے اور ماحول سازگار بنایا جائے۔ امریکہ اور برطانیہ نے ان انتخابات پر تنقیدی بیانات جاری کئے ہیں۔

محکمہٴخارجہ کی ترجمان نے دونوں فریقوں سے کہا ہے کہ وہ جلد ازجلد ایسے آزادانہ اور پُرامن انتخابات کرانےکا کوئی طریقہ نکالیں، جو بنگلہ دیش کے عوام کی ترجمانی کریں۔


کیا ایڈورڈ سنوڈن غدّار ہے؟ اِس عنوان سے تجزیہ کار رچرڈ کوہن ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں کہتے ہیں کہ ’نیو یارک ٹائمز‘ نے پچھلے ہفتے ایک زوردار ادارئے میں دلیل پیش کی تھی کہ سنوڈن کو کسی قسم کی پیشکش کی جائے یا معافی دی جائے، تاکہ وہ روس میں اپنی جلاوطنی ختم کرکے، امریکہ لوٹ آئے۔ اس پر اُسی روز 1200 افراد نے ردعمل کا اظہار کیا، جو ایک ادارئے کے لئے بہت غیر معمولی بات ہے۔ ان میں سے بہت سے مغلّظات اور منافرت سے بھرے ہوئے تھے۔ کوہن کہتے ہیں کہ مُجھے بھی شائد ایسی ہی مغلّظات کے لئے تیار رہنا چاہئے، کیونکہ میں پہلے ہی کہہ چُکا ہوں کہ، سنوڈن کو غداروں کی صف میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ، اس کا امکان ضرور ہے کہ اس نے امریکہ کو نقصان پہنچایا ہو۔
XS
SM
MD
LG