امریکہ اور طالبان حکومت کے نمائندے رواں ہفتے ایک بار دوحہ میں بات چیت کے لیے جمع ہو رہے ہیں۔ ماہرین اس ملاقات کو افغانستان میں خواتین اور انسانی حقوق کے لیے اہم قرار دے رہے ہیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کو دوحہ مذاکرات میں دو ٹوک مؤقف اپنانا چاہیے۔
امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ رواں ہفتے دوحہ میں امریکی سفارت کاروں اور طالبان نمائندوں کے درمیان ایک طویل عرصے بعد براہ راست بات چیت ہو گی۔
یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب طالبان کو افغانستان کی باگ ڈور سنبھالے تقریبا دو سال مکمل ہونے کو ہیں۔ تاحال طالبان حکومت کو امریکہ سمیت کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا۔
مبصرین کے مطابق امریکہ اور طالبان ایک دوسرے کے حوالے سے سخت مؤقف رکھتے ہیں۔ لہذٰا اس ماحول میں دوحہ مذاکرات ایک اہم پیش رفت ہے۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری 2020 میں دوحہ امن معاہدہ طے پایا تھا جس میں طالبان نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔
طالبان نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ ملک میں جامع حکومت کے قیام اور خواتین کو حقوق بھی دیں گے۔ تاہم عالمی برادری کو شکوہ ہے کہ طالبان نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔
امریکہ اور عالمی برادری طالبان حکومت پر زور دیتی رہی ہے کہ وہ ملک میں انسانی حقوق اور خواتین کا بااختیار بنانے کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔ طالبان حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ وہ ملک میں تمام طبقات کی نمائندگی والی جامع حکومت کے قیام کی راہ ہموار کریں۔
طالبان حکومت نے 12 سے 18 برس کی بچیوں کو گھروں میں رہنے کے احکامات جاری کیے تھے جس کی وجہ سے ساتویں سے بارہویں جماعت میں پڑھنے والی لاکھوں افغان بچیاں اسکول نہیں جا پا رہیں۔
خواتین کے حقوق
افغان نیوز ایجنسی 'پژواک' کے سینئر ایڈیٹر سید مدثر شاہ کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کی جانب سے دوحہ ملاقات کا ایجنڈا سامنے آ چکا ہے جس میں امریکہ کی ترجیح افغانستان میں انسانی حقوق، خواتین کے روزگار اور تعلیم اور ایک وسیع البنیاد حکومت کا قیام ہے۔
دوسری جانب طالبان حکومت نے بھی اس ملاقات کے حوالے سے اپنا ایجنڈا واضح کر دیا ہے۔
طالبان حکومت کے دفترِ خارجہ کے مطابق وزیرِ خارجہ امیر خان متقی امریکی حکام سے بلیک لسٹ کے خاتمے، منجمد اثاثوں کی بحالی اور فضائی حدود کی خلاف ورزی جیسے معاملات پر بات کریں گے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سید مدثر شاہ کا کہنا تھا کہ اگرچہ افغانستان نے فضائی حدود کی خلاف ورزی کا براہِ راست الزام امریکہ پر نہیں لگایا لیکن اشارہ امریکی ڈرونز کی جانب ہی ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال امریکہ نے کابل میں القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا تھا۔ اس واقعے کے بعد افغانستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے حوالے سے ایک نئی بحث نے جنم لیا تھا۔
سید مدثر شاہ کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان دُوریوں کی وجہ باضابطہ ملاقاتوں کی کمی ہے۔
اُن کے بقول یہ نشست دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد سازی کو آگے بڑھائے گی کیوں کہ فریقین سمجھتے ہیں کہ مسائل کا حل مذاکرات کی میز پر ہی نکل سکتا ہے۔
مدثر شاہ کے مطابق "اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ ادوار کے مقابلے میں طالبان کا اثر و رسوخ پورے افغانستان پر ہے اور اس لحاظ سے سیکیورٹی میں بھی خاطر خواہ بہتری آئی ہے۔ اس لیے امریکہ بھی سمجھتا ہے کہ موجودہ حالات میں طالبان کے ذریعے ہی اقدامات کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔"
افغانستان کے لیے انسانی امداد
امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق ترجیحی امور میں افغانستان کے عوام کے لیے انسانی امداد، معاشی استحکام، خواتین اور لڑکیوں سمیت تمام افغان شہریوں کے ساتھ منصفانہ اور باوقار سلوک، سیکیورٹی کے معاملات اور منشیات کی پیداوار اور اسمگلنگ کی روک تھام کی کوششیں شامل ہیں۔
امریکی نمائندہ خصوصی رینا امیری نے جمعرات کو ایک ٹویٹ کے ذریعے بتایا کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، البانیہ، بنگلہ دیش اور مراکش کے نمائندوں کے ساتھ حالیہ ملاقاتوں میں انہوں نے کہا کہ خواتین کے حقوق اسلام میں محفوظ ہیں اور اقتصادی ترقی اور استحکام میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
امیری نے واضح کیا کہ ان علاقوں میں اس بات پر بھی اتفاق ہوا کہ مسلم اکثریتی ممالک اور عالمی برادری کو افغانستان میں خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے۔
دوحہ میٹنگ سے قبل قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں امریکی سفارت کاروں نے قازقستان، ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان اور کرغزستان کے نمائندوں کے ساتھ افغانستان کی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا۔
'طالبان حکومت کی خوش فہمیاں دُور ہوں گی'
سابق افغان رکن پارلیمنٹ شینکئی کڑوخیل کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ اور طالبان کے نمائندوں کی ملاقات کے حق میں ہیں کیوں کہ جن خوش فہمیوں میں طالبان قیادت مبتلا ہے کم از کم ان ملاقاتوں سے یہ دُور ہو جائیں گی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ حکومتی امور چلانے کے لیے کسی کو جواب دہ نہیں ہیں اور جلد یا بدیر عالمی برادری ان کی حکومت کو تسلیم کر لے گی۔
اُن کے بقول یہ ایک اچھا موقع ہے کہ امریکہ طالبان پر واضح کر دے کہ اگر وہ امریکی حمایت چاہتے ہیں تو اس کے لیے طالبان کو اپنی سوچ اور فکر میں تبدیلی لانا ہو گی۔
واضح رہے کہ امریکہ پہلے ہی یہ بتا چکا ہے کہ اس طرز کی ملاقاتوں کے ذریعے ان کی پالیسی میں قطعاً کسی تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔
شینکئی کڑوخیل کے مطابق امریکی نمائندہ خصوصی رینا امیری ایک اچھے ہوم ورک کے ساتھ دوحہ جا رہی ہیں جہاں امید کی جاتی ہے کہ وہ افغان طالبان کے ساتھ ملک میں ہونے والی جبر و زیادتی اور ناروا سلوک جیسے مسائل ضرور اُجاگر کریں گی۔
شینکئی کڑوخیل کے مطابق رینا امیری کی طالبان حکام کے ساتھ ملاقات خواتین کے مستقبل کے حوالے سے سود مند ہو گی۔