رسائی کے لنکس

خالصتان: سکھوں کی آزاد ریاست کی تحریک کا ایک جائزہ


سکھ مظاہرین لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کے باہیر احتجاج کرتے ہوئے
سکھ مظاہرین لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کے باہیر احتجاج کرتے ہوئے

امریکہ نے بھارت کے ایک شہری پر فرد جرم عائد کی ہے جس میں استغاثہ کا الزام ہے کہ بھارت کے ایک نامعلوم سرکاری اہلکار کے کہنے پر ایک سکھ علیحدگی پسند کو قتل کرنے کی ناکام سازش کی گئی۔

یورپ میں جس بھارتی شہری کو جون میں گرفتار کیا گیا تھا اس کے خلاف بدھ کے روز یہ فرد جرم عائد کی گئی جس سے پہلے کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا تھا کہ ایسے قابل اعتماد الزامات موجود ہیں جو کینیڈین شہر وینکوور کے قریب ایک سکھ کارکن کے قتل میں بھارت کے ملوث ہونے سے متعلق ہیں ۔ اس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدگی کا شکار ہو گئے ہیں۔

امریکہ کے لیے یہ معاملہ اس تناظر میں خاص طور پر حساس ہے کیونکہ صدر جو بائیڈن نے بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کو اپنی ترجیح قرار دے رکھا ہے جس کا مقصد چین کے بڑھتے ہوئے عزائم کا مقابلہ کرنے کے لیے اسے ایک اہم شراکت دار کی حیثیت دینا ہے۔

بھارت نے سکھوں کی آزادی یا خالصتان تحریک پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اس نے اس سے قبل کینیڈا اکی جانب سے قتل میں ملوث ہونے کے الزام کی تردید کی تھی، اور اپنے ایک شہری پر امریکی محکمہ انصاف کی فرد جرم عائد ہونےکے بعد اس نےکہا ہے کہ وہ امریکہ کی طرف سے شیئر کی گئی معلومات کا جائزہ لے رہا ہے اور ان الزامات پر سنجیدگی سے غور کر رہا ہے۔

معاملہ کیا ہے۔ آیئے کچھ تفصیلات کا جائزہ لیتے ہیں ۔

خالصتان تحریک ہے کیا؟

گولڈن ٹمپل پر جمع سکھ عقیدتمند
گولڈن ٹمپل پر جمع سکھ عقیدتمند

1970 اور 1980 کی دہائیوں میں بھارت کے سکھوں کی جانب سے چلائی جانے والی آزادی کی تحریک نے بالآخر ایک مسلح خونریز بغاوت کی شکل اختیار کر لی جس نے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس کا مرکز شمالی ریاست پنجاب میں تھا جہاں سکھوں کی اکثریت ہے۔ سکھ اقلیت بھارت کی مجموعی آبادی کا تقریباً 1.7 فیصدہے۔

یہ شورش ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک جاری رہی اور اسے بھارتی حکومت نے کڑی کارروائی کے ذریعے دبا دیا ۔ اس دوران ہزاروں افراد ہلاک ہو گئے جن میں سرکردہ سکھ رہنما بھی شامل تھے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق پولیس کی کارروائیوں میں سینکڑوں سکھ نوجوان بھی مارے گئے یا پھر متعدد افراد حراست میں یا فائرنگ کے تبادلے کے دوران مارے گئے ۔

بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی 1984میں ہلاکت

1984میں بھارتی افواج نےامرتسر میں واقع گولڈن ٹمپل پر دھاوا بول دیا جس کا مقصد ان علیحدگی پسندوں کو وہاں سے نکالنا تھا جو وہاں پناہ لیے ہوئے تھے۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس کارروائی کے دوران تقریبا چار سو افراد ہلاک ہوئے تھے لیکن سکھ گروپوں کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں تھی ۔عسکریت پسند سکھ لیڈر جرنیل سنگھ بھنڈر انوالا بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل تھے ۔ بھارتی حکومت نےان کو مسلح بغاوت کی قیادت کے لیے مورد الزام ٹھہرایا تھا۔

بھارت کی اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو31 اکتوبر 1984 کو ان کے دو سکھ محافظوں نے ہلاک کر دیا۔ اندرا گاندھی نے گولڈن ٹمپل پر حملہ کرنے کا حکم دیا تھا۔وزیر اعظم اندرا گاندھی کی موت کے نتیجے میں سکھ مخالف بلووں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔

ان فسادات کے دوران ہندوؤں کے کچھ مشتعل ہجوم شمالی پنجاب خاص طور پر نئی دہلی میں سکھوں کے گھروں میں داخل ہو گئے ۔ ان کے رہائشیوں کو باہر نکالا ۔ متعدد افراد کو ہلاک کر دیا گیا جبکہ کئی افراد کو زندہ ہی نذر آتش کر دیا گیا۔

کیا یہ تحریک آج بھی فعال ہے؟

پنجاب میں اس وقت کسی نوعیت کی بغاوت تو فعال نہیں ہے۔ تاہم، بھارت سے باہر شمالی امریکہ میں موجود سکھ کمیونٹی میں خالصتان تحریک کے کچھ حمایتی موجود ہیں ۔

بھارت کی حکومت حالیہ برسوں میں انتباہ کرتی آ ئی ہاے کہ سکھ علیحدگی پسند اس تحریک کو دوباریہ شروع کرنے کی کوشش میں ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے سکھ علیحدگی پسندوں کی تلاش تیز کی ہے اور اس تحریک سے تعلق رکھنے والے درجنوں لیڈروں کو مختلف مقامات سے گرفتار کیا گیاہے۔

2020 میں متنازعہ زرعی قوانین پر احتجاج کرنے والے کسانوں نے جب دہلی کے باہر ڈیرے ڈال دیے تھے تو مودی حکومت نے ابتدا میں سکھ شرکا کے لیے خالصتانی کا لفظ استعمال کیا تھا ۔ بعد ازاں کسانوں کے دباؤ کے نتیجے میں ان قوانین کو واپس لینا پڑا تھا۔

بھارت کی پولیس نے اس سال کے آغاز میں ایک علیحدگی پسند لیڈر کو گرفتار کیا تھا جنہوں نے خالصتان کا دوبارہ مطالبہ کیا تھا ۔ اس کے نتیجے میں پنجاب میں تشدد کےخدشات پیدا ہوئے ۔ تیس سالہ مبلغ امرت پال سنگھ نے اپنی شعلہ بیان تقاریر کی وجہ سے توجہ حاصل کی ۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھنڈر انوالا سے متاثر ہیں۔

بھارت سے باہر یہ تحریک کتنی مضبوط ہے؟

بھارت کینیڈا، آسٹریلیا اور برطانیہ سے کہتا آیا ہے کہ وہ سکھ ایکٹوسٹس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں اور وزیر اعظم مودی نے ان ممالک کے وزرائے اعظم سے ذاتی طور پر بھی اس مسئلے کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ بھارت نے خاص طور پر کینیڈا کے ساتھ تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ کینیڈا میں سکھوں کی تعداد کل آبادی کا تقریبا دو فیصد ہے۔

لندن میں سکھ مظاہرین نے اس سال کے شروع میں بھارت کے ہائی کمیشن سے بھارتی پرچم اتار دیا اور عمارت کی کھڑکی توڑ دی۔یہ امرت پال سنگھ کی گرفتاری کے اقدام کے خلاف غصے کا اظہار تھا۔ سان فرانسسکو، امریکہ میں بھی مظاہرین نے بھارتی قونصل خانے کی کھڑکیاں توڑ دیں اور سفارت خانے کےاہلکاروں کے ساتھ ان کی جھڑپیں ہوئیں۔

بھارت کی وزارت خارجہ نے ان واقعات کی مذمت کی اور نئی دہلی میں برطانیہ کے ڈپٹی ہائی کمشنر کو طلب کرکے احتجاج کیا اوراسے لندن میں سفارت خانےکی سیکورٹی کی خلاف ورزی قرار دیا ۔

بھارتی حکومت نے کینیڈا میں خالصتان کے حامیوں پرالزام عائد کیا ہے کہ انھوں نے مارچ میں ایک احتجاج کے دوران ’’بھارت مخالف ‘‘ گریفیٹی" کے ساتھ ہندو مندروں میں توڑ پھوڑکی اور اوٹاوا میں بھارتی ہائی کمیشن کے دفاتر پر حملہ کیا ہے۔

پاکستان میں گزشتہ سال ایک سکھ عسکریت پسند رہنما اور خالصتان کمانڈو فورس کے سربراہ پرمجیت سنگھ پنجوار کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

اس رپورٹ کی تفصیلات خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں ۔

فورم

XS
SM
MD
LG