رسائی کے لنکس

مسلمانوں کی تنظیم 'پاپولر فرنٹ آف انڈیا' پر دہشت گردی کے الزامات کیوں لگ رہے ہیں؟


بھارت میں مسلمانوں کی تنظیم 'پاپولر فرنٹ آف انڈیا' (پی ایف آئی) پر دہشت گردی کے الزامات عائد کر کے اس پر پابندی کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا الزام ہے کہ پی ایف آئی مسلمانوں پر ہونے والی مبینہ زیادتیوں کا انتقام لینے کے لیے قائم کی گئی ہے۔ لیکن پی ایف آئی کا کہنا ہے کہ وہ ایک فلاحی تنظیم ہے۔

رواں برس کے آغاز میں جب کرناٹک کے کالجز میں مسلم طالبات کے حجاب پر پابندی کا تنازع پیدا ہوا تھا تو اس وقت بھی پی ایف آئی کا نام سامنے آیا تھا اور یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ مسلم طالبات کی حجاب مہم میں اس کا ہاتھ ہے۔

جب مودی حکومت کی جانب سے شہریت کے قانون میں ترمیم کی گئی اور اس کے خلاف ملک کے مختلف علاقوں میں احتجاج کیا جا رہا تھا تو اس وقت پی ایف آئی پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ سی اے اے مخالف تحریک کی فنڈنگ کر رہی ہے۔

جب رواں سال کے اپریل میں دہلی کے جہانگیر پوری علاقے میں تشدد ہوا تو دہلی پولیس نے اس کے لیے پی ایف آئی کو موردِ الزام ٹھہرایا تھا۔

حالیہ دنوں میں ایک بار پھر پی ایف آئی کا نام ذرائع ابلاغ کی زینت بنا ہوا ہے۔ ریاست کرناٹک کے دکشن کنڑ ضلع کے موضع بلارے میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے یوتھ ونگ کے ایک لیڈر کے قتل میں بھی پی ایف آئی پر الزام لگایا گیا ہے۔ اس واقعے کے بعد کرناٹک کے مختلف علاقوں میں کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔

اس سے قبل 20 جولائی کو کیرالہ سے تعلق رکھنے والے ایک مسلم نوجوان کا قتل اسی علاقے میں ہوا تھا۔ میڈیا میں ایسی قیاس آرائی ہے کہ بی جے پی لیڈر کا قتل اس مسلم نوجوان کے قتل کا انتقام ہے۔

رپورٹس کے مطابق گزشتہ کچھ برسوں میں کیرالہ اور کرناٹک میں درجنوں سیاسی قتل ہوئے ہیں اور بیشتر میں پی ایف آئی پر الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ خود پی ایف آئی کے متعدد کارکنوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔

بھارتی کشمیر میں روہنگیا پناہ گزین خوف وہراس کا شکار
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:20 0:00

پی ایف آئی کا قیام اور سرگرمیاں

پی ایف آئی کا قیام 2007 میں کیرالہ میں قائم کی گئی تھی۔ تین ریاستی تنظیموں کیرالہ کی نیشنل ڈویلپمنٹ فرنٹ ’این ڈی ایف‘، کرناٹک کی ’کے ایف ٹی‘ اور تمل ناڈو کی ’ایم این پی‘ نے ایک ساتھ مل کر ایک فیڈریشن بنائی جسے ’پاپولر فرنٹ آف انڈیا‘ کا نام دیا گیا۔ اس کے بعد 2009 میں مذکورہ تنظیموں کے ساتھ ساتھ دیگر پانچ ریاستوں کی کچھ اور تنظیمیں بھی اس میں شامل ہو گئیں۔

پی ایف آئی کی خواتین کی ایک شاخ ’نیشنل ویمنز فرنٹ‘ (این ڈبلیو ایف) اور اسٹوڈنٹس کی ایک شاخ ’کیمپس فرنٹ آف انڈیا‘ (سی ایف آئی) بھی ہے۔ کرناٹک میں حجاب تنازع میں سی ایف آئی پر مسلم طالبات کو مشتعل کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا جس کی اس نے تردید کی تھی۔

پی ایف آئی کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک فلاحی جماعت ہے جو کہ تعلیم، قانونی تعاون، انسانی حقوق کے تحفظ اور آفات سماوی میں ریلیف جیسے شعبوں میں کام کرتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ ہر سال ’اسکول چلو‘ کے نام سے ایک مہم چلاتی ہے۔

پی ایف آئی کے جنرل سیکریٹری انیس احمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ہم لوگ پسماندہ علاقوں میں بچوں کو مفت تعلیم دیتے ہیں۔ جب کہ پسماندہ طبقات کے اسٹوڈنٹس کو پیشہ ورانہ کالجز میں اسکالر شپ بھی دی جاتی ہے۔

پی ایف آئی پر الزامات

پی ایف آئی پر حکومت اور پولیس کی جانب سے ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے، خطرناک ہتھیار بم اور تلوار رکھنے، مسلم نوجوانوں کو ہتھیاروں کی ٹریننگ دینے، اغوا، قتل، دھمکی، نفرت انگیز مہم، دنگا فساد، لو جہاد اور دیگر مذہبی انتہاپسندانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا بھی الزام عائد کیا جاتا ہے۔

پی ایف آئی ان تمام الزامات کی تردید کرتی ہے۔ انیس احمد کہتے ہیں کہ بھارت میں کوئی بھی واقعہ ہو پی ایف آئی پر الزام عائد کر دیا جاتا ہے۔ لیکن تحقیقات میں ایک بھی الزام درست ثابت نہیں ہوا۔


انہوں نے کہا کہ آج تک کسی بھی معاملے میں پی ایف آئی کا ہاتھ ثابت نہیں ہوا ہے۔ صرف ایک معاملے میں پی ایف آئی کے ایک کارکن کو عدالت سے سزا سنائی گئی ہے اور ہم نے اس کو چیلنج کر رکھا ہے۔ پی ایف آئی غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف ہے۔

ان کے مطابق پی ایف آئی نے ملک کی دستور مخالف طاقتوں کے خلاف ایک سخت موؐقف اختیار کیا ہے۔ ہم آر ایس ایس کے خلاف ہیں کیونکہ وہ آئیڈیا آف انڈیا کے خلاف ہے۔ وہ ہندوتوا کے نظریے کو ملک میں نافذ کرنا اور دستور کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ پی ایف آئی اس کے خلاف ہے اور اسی لیے اس پر مختلف قسم کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔

اُنہوں نے پی ایف آئی کے مسلم آر ایس ایس بننے کے الزام کی بھی تردید کی اور کہا کہ آر ایس ایس تو سیکولر بھارت کے خلاف ہے۔ جب کہ پی ایف آئی نے آج تک ملک کے خلاف کوئی بیان تک نہیں دیا ہے۔

پی ایف آئی پر القاعدہ اور دولتِ اسلامیہ (داعش) جیسی تنظیموں سے تعلق کا بھی الزام لگایا جاتا ہے۔ لیکن انیس احمد کے مطابق جب بھارت میں اسلامک اسٹیٹ کا معاملہ اٹھا تھا تو سب سے پہلے پی ایف آئی نے ہی اس کے خلاف ملک گیر مہم چلائی تھی۔

کیا پی ایف آئی مسلمانوں کے لیے سیاسی متبادل بن سکتی ہے؟

پی ایف آئی ایک سیاسی تنظیم ’سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی آف انڈیا‘ (ایس ڈی پی آئی) کے ساتھ مل کر سیاسی سرگرمیاں بھی چلاتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ مسلم سیاست کو فروغ دے رہی ہے اور اقتدار میں مسلمانوں کی نمائندگی چاہتی ہے۔

کرناٹک کے بلدیاتی اداروں میں اسے کچھ نشستیں حاصل ہوئی ہیں لیکن اسمبلی انتخابات میں اسے کوئی کامیابی نہیں ملی ہے۔ اسمبلی انتخابات میں اس کا اصل مقابلہ کانگریس کے امیدوراوں سے ہوتا ہے۔


متعدد تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پی ایف آئی اور ایس ڈی پی آئی مسلم فرقہ پرستی کی سیاست کرتی ہیں اور ان کی اس سیاست سے بی جے پی کو فائدہ پہنچتا ہے۔

بنگلور کے ایک سینئر تجزیہ کار سید تنویر احمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پی ایف آئی بھارت میں فرقہ وارانہ سیاست کی دین ہے۔ آر ایس ایس اور پی ایف آئی دونوں کو ایک دوسرے سے سپورٹ ملتی ہے۔

ان کے مطابق انتخابات کے دوران ایس ڈی پی آئی کے لیے پی ایف آئی اور اس کی اسٹوڈنٹس اور خواتین کی شاخیں بھی کام کرتی ہیں۔ کانگریس کے امیدواروں سے ایس ڈی پی آئی کے امیدواروں کے مقابلے کی وجہ سے بی جے پی کو انتخابی فائدہ پہنچتا ہے۔

ان کے خیال میں اگر حکومت چاہے تو وہ پی ایف آئی اور ایس ڈی پی آئی پر فوراً پابندی لگا سکتی ہے۔ لیکن وہ بھی چاہتی ہے کہ مسلمانوں کے حق میں جذباتی اور پرجوش تقریریں ہوں اور نعرے لگائے جائیں تاکہ ہندو فرقہ وارانہ سیاست کو فائدہ پہنچے۔

اُنہوں نے اس خیال کو بعید از قیاس قرار دیا کہ آگے چل کر پی ایف آئی یا ایس ڈی پی آئی مسلمانوں کے لیے کوئی متبادل سیاسی پلیٹ فارم مہیا کر سکتی ہیں۔ ان کے مطابق تعلیم یافتہ مسلمانوں کا طبقہ ان کے ساتھ نہیں ہے۔

دیگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہاں کا مسلمان فرقہ وارانہ سیاست کا حامی نہیں ہے اور پی ایف آئی اور ایس ڈی پی آئی کے سیاسی نظریات انہیں سوٹ نہیں کرتے۔

پی ایف آئی پر الزام ہے کہ اس کے چیئرمین کیرالہ کے او ایم عبد السلام اور دیگر عہدے دار ممنوعہ ’اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا‘ (سیمی) کے سابق عہدے دار اور کارکن ہیں۔ لیکن پی ایف آئی اس الزام کی بھی تردید کرتی ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG