افغانستان میں قیامِ امن کے لیے امریکی حکام اور افغان طالبان کے درمیان متحدہ عرب امارات میں مذاکرات منگل کو دوسرے دن بھی جاری ہیں۔
مذاکرات میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا اور ممکنہ جنگ بندی پر بات چیت کی جارہی ہے۔
متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابو ظہبی میں جاری ان مذاکرات میں امریکی حکام اور افغان طالبان کے علاوہ افغان حکومت، پاکستان، سعودی عرب اور میزبان ملک کے نمائندے بھی شریک ہیں۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے مذاکرات کے بارے میں ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ طالبان نمائندوں کی پیر کو امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کے علاوہ سعودی، پاکستانی اور اماراتی حکام سے بات چیت ہوئی ہے جو منگل کو بھی جاری رہے گی۔
طالبان ترجمان کے مطابق مذاکرات میں افغانستان میں قیامِ امن اور تعمیرِ نو، "قابض افواج" کے افغانستان سے انخلا اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی "ظالمانہ کارروائیاں" روکنے کے بارے میں بات ہوئی ہے۔
Brief report about yesterday’s meetings in Abu Dhabi https://t.co/vevpD6PkP5 pic.twitter.com/qklBRc60Yn
— Zabihullah (ذبیح الله م ) (@Zabihullah_4) December 18, 2018
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق طالبان ذرائع نے بتایا ہے کہ فریقین نے مذاکرات میں افغانستان میں ممکنہ جنگ بندی اور افغانستان میں غیر ملکی افواج کے مستقبل کے بارے میں بھی گفتگو کی ہے۔
افغان طالبان کے ذرائع نے بتایا ہے کہ امریکی وفد طالبان پر چھ ماہ کے لیے جنگ بندی اور مستقبل میں افغانستان کی ممکنہ نگران حکومت میں اپنے نمائندے نامزد کرنے پر زور دے رہا ہے۔
مذاکرات میں امریکی وفد کی قیادت امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد کر رہے ہیں۔
ادھر افغان حکومت کے ترجمان ہارون چاکان سوری کے مطابق افغانستان کی حکومت کا ایک وفد بھی بات چیت میں شرکت کے لیے ابوظہبی پہنچا ہے۔
The Afghan negotiating team (@AFGNEGTeam), led by chief negotiator Abdul Salam Rahimi, arrived in Abu Dhabi to begin proximity dialogue with the Taliban delegation and to prepare for a face-to-face meeting between the two sides.
— ارگ (@ARG_AFG) December 18, 2018
ٹوئٹر پر مختصر پیغام میں ترجمان نے کہا ہے کہ مذاکرات کے لیے اعلیٰ نمائندے عبد السلام رحیمی کی سربراہی میں افغان مذکراتی ٹیم ابوظہبی پہنچ گئی ہے۔ تاکہ وہاں طالبان نمائندوں سے براہِ راست بات چیت کر سکے۔
گو کہ امریکہ نے طالبان کے ساتھ اس براہِ رست بات چیت کا خیر مقدم کیا ہے لیکن امریکی حکام نے حالیہ مذاکرات کے بارے میں کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا ہے۔
پاکستانی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان اس بات چیت میں اس نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک بار پھر اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ ان کا ملک افغان مصالحتی عمل کو آگے بڑھانے میں ہر ممکن مدد کرے گا۔
Pakistan has helped in the dialogue between Taliban and the US in Abu Dhabi. Let us pray that this leads to peace and ends almost three decades of suffering of the brave Afghan people. Pakistan will be doing everything within its power to further the peace process.
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) December 18, 2018
وزیرِ اعظم نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ "ہم امید کرتے ہیں کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان شروع ہونے والے مذاکرات سے افغانستان میں امن کی راہ ہموار ہو گی اور تین دہائیوں سے جاری جنگ کے باعث افغانون کی مشکلات ختم ہوں گی۔"
پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی ایک ٹوئٹ میں بات چیت کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان میں امن کے قیام اور ایک خوش حال خطے کی تعمیر کے لیے کام کیا اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔
امریکہ کی جانب سے امن مذاکرات میں تیزی رواں سال ستمبر سے آئی ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سابق سفارت کار زلمے خلیل زاد کو افغانستان میں مفاہمت کے لیے اپنا نمائندہ خصوصی مقرر کیا تھا۔
زلمے خلیل زاد اب تک پاکستان، افغانستان، سعودی عرب، قطر اور روس سمیت خطے کے کئی ممالک کے دورے کرچکے ہیں جب کہ انہوں نے طالبان کے نمائندوں سے بھی قطر میں کم از کم دو بار بات چیت کی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ آئندہ برس افغانستان میں ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل افغان طالبان کے ساتھ امن معاہدہ چاہتا ہے۔