لاپتا امریکی مصنف کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں: افغان طالبان

فائل

’’ہم ذاتی ذرائع سے پہلے ہی اُن کے اہل خانہ کو بتا چکے ہیں کہ ہم نے اُن کے خاندان کے کسی فرد کو نہیں پکڑا۔ ایک بار پھر، ہم واضح طور پر اعلان کرتے ہیں کہ امریکی شہری پال اوربائی نا تو ہمارے کسی مجاہد کے زیر حراست ہے، ناہی اُنھیں ہم نے پکڑا ہوا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہیں‘‘

نور زاہد

افغانستان میں منگل کے روز طالبان نے اِس بات کی تردید کی ہے کہ اُنھوں نے ایک امریکی مصنف کو یرغمال بنایا ہوا ہے، جو اپنا تحقیقی کام کر رہے تھے جب دو سال قبل وہ افغانستان-پاکستان سرحدی علاقے سے لاپتا ہوگئے تھے۔ یوں اُن کے بارے میں نئے سوال اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

لاپتا ہونے والے شخص کی بیوی، جین لارسن نے گذشتہ ہفتے ’ریڈیو لبرٹی‘ کے ساتھ گفتگو کی تھی، جن کی اپیل کے جواب میں ایک بیان میں طالبان نے کہا ہے کہ ’’ہمارے مجاہدین وزیرستان میں کارروائیاں نہیں کرتے، اس لیے لاپتا امریکی شخص کی گرفتاری میں ملوث نہیں ہیں‘‘۔

چہتر سالہ، پال اوربائی کا 17 مئی، 2014ء کو اپنی بیوی سے رابطہ ہوا تھا، جب وہ افغانستان کے خوست کے علاقے سے روانہ ہوئے تھے۔ لارسن نے گذشتہ ماہ پاکستانی میڈیا سے گفتگو کے دوران اُن کی رہائی کی اپیل کی تھی، جس کے بعد پہلی بار معلوم ہوا کہ خاندان یہ سمجھتا ہے کہ اُنھیں اغوا کیا گیا ہے۔

اوربائی ایک کتاب کے مصنف ہیں، جس کا عنوان ہے: ’ہولی بلڈ: این انسائیڈ ویو آف دی افغان وار‘۔ وہ طالبان سے منسلک حقانی شدت پسند نیٹ ورک کے سربراہ، سراج الدین حقانی کو انٹرویو کرنا چاہتے تھے۔

اطلاعات کے مطابق، وہ صوبہٴ خوست سے پاکستان کے سرکشی کے شکار قبائلی علاقے، شمالی وزیرستان کے لیے روانہ ہوئے تھے۔

لارسن نے کہا ہے کہ اُن کے شوہر کو حقانی نیٹ ورک نے یرغمال بنایا ہے، جسے امریکہ نے غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے۔

طالبان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ حقانی گروپ طالبان تنظیم کا ایک جُزو ہے۔

اُنھوں نے ’ریڈیو لبرٹی‘ کو بتایا کہ پال افغان لڑائی کے بارے میں اپنی ایک نئی کتاب پر کام کر رہے تھے۔ مارچ، 2014ء میں اُنھوں نے افغانستان اور پاکستان کا سفر کیا۔ وزیرستان جانے سے قبل، اُنھوں نے بتایا کہ پال نے کابل میں ایک ماہ گزارا۔

لارسن کے مطابق، اوربائی خوست کے راستے وزیرستان میں داخل ہوا، جس سے کچھ ہی روز قبل پاکستانی فوج نے علاقے میں شدت پسند گروہوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تھا، جب اُنھیں ’’پکڑ لیا گیا‘‘۔

منگل کو طالبان نے بتایا کہ اُنھیں اوربائی کا اتا پتا نہیں معلوم اور نہیں کہہ سکتے کہ اُن کے ساتھ کیا بیتی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’’ہم ذاتی ذرائع سے پہلے ہی اُن کے اہل خانہ کو بتا چکے ہیں کہ ہم نے اُن کے خاندان کے کسی فرد کو نہیں پکڑا۔ ایک بار پھر، ہم واضح طور پر اعلان کرتے ہیں کہ امریکی شہری پال اوربائی نا تو ہمارے کسی مجاہد کے زیر حراست ہے، ناہی اُنھیں ہم نے پکڑا ہوا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہیں‘‘۔

حقانی نیٹ ورک نے متعدد مغربی شہریوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے، جن میں امریکن یونیورسٹی کی فیکلٹی کے دو ارکان شامل ہیں، جنھیں گذشتہ برس کابل سے یرغمال بنایا گیا تھا۔

طالبان نے حال ہی میں حقانی نیٹ ورک نے امریکی شہری کیتلان کولمن اور اُن کے کینڈا کے شوہر جوشوا بائل کی ایک وڈیو جاری کی ہے، جن کو 2012ء میں اغوا کیا گیا تھا، جب وہ واپسی کے سفر پر روانہ تھے۔ وڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ قید کے دوران اُن کے دو بیٹے پیدا ہوئے۔

لارسن نے گذشتہ ہفتے سراج الدین کی والدہ کو ایک ذاتی اپیل کی تھی کہ اُن کے شوہر کی واپسی میں مدد کی جائے، یہ امید کرتے ہوئے کہ دہشت گرد کی ماں اُن پر رحم کھا کر، اپنے بیٹے سے کہیں گی کہ پال کو رہا کیا جائے، اور ریڈ کراس کی معرفت مراسلہ بھیجا جائے گا۔