طالبان کے ساتھ روس کے روابط کا انکشاف، افغانستان کی برہمی

فائل

اس معاملے پر افغان پارلیمان کے اجلاس میں گرما گرم بحث جاری ہے، چند قانون سازوں نے اسلام نواز باغیوں تک روس کی رسائی کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’’شرمناک‘‘ قرار دیا ہے، جب کہ دیگر نے روس کی جانب سے طالبان جنگجوؤں کو جدید ترین اسلحے کی فراہمی کا الزام لگایا ہے


افغانستان کے حکام اور قانون ساز روس کے حالیہ انکشاف پر سوال اٹھا رہے ہیں اور اُس کی مذمت کر رہے ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ روس طالبان کے ساتھ ’’محدود سیاسی‘‘ روابط برقرار رکھے ہوئے ہے۔

اس معاملے پر افغان پارلیمان کے اجلاس میں گرما گرم بحث جاری ہے، چند قانون سازوں نے اسلام نواز باغیوں تک روس کی رسائی کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’’شرمناک‘‘ قرار دیا ہے، جب کہ دیگر نے روس کی جانب سے طالبان جنگجوؤں کو جدید ترین اسلحے کی فراہمی کا الزام لگایا ہے۔

قانون سازوں نےطالبان کی حمایت کرنے پر ہمسایہ ایران پر بھی نکتہ چینی کی ہے۔

بدھ کے روز، قانون ساز ایوانِ زیریں، یا ’ولاسی جرگہ‘ نے ایک قرارداد منظور کی، جس میں صدر اشرف غنی کی قومی وحدت والی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ہمسایہ اور علاقائی ممالک کو افغان داخلی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہ دی جائے، ’’اس بات کو جواز بناتے ہوئے کہ داعش کے خلاف لڑائی میں طالبان کی حمایت کی جائے‘‘۔

گذشتہ ہفتے، کابل میں تعینات روسی سفیر، الیگزینڈر مانتتسکی نے انکشاف کیا تھا کہ اُن کی حکومت باغی گروپ کے ساتھ روابط قائم رکھے ہوئے ہے۔ تاہم، یہ ’’قریبی نوعیت‘‘ کے تعلقات نہیں ہیں۔

ہفتے کے روز ایک غیرمعمولی سماعت کے دوران مانتتسکی نے افغان قائمہ کمیٹی برائے بین الاقوامی امور کو بتایا کہ ’’ہاں، (طالبان کے ساتھ) ہمارے روابط ہیں۔ تاہم اِن کا مقصد روسی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانا اور (کابل کے ساتھ) امن بات چیت میں طالبان کی شمولیت کی ہمت افزائی کرنا ہے‘‘۔

اُنھوں نے طالبان کے ساتھ روسی مراسم پر اظہار برہمی پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ، برطانیہ، اٹلی، قطر اور سعودی عرب جیسے تمام ممالک کے اِن باغیوں سے روابط ہیں۔
تاہم، سفارت کار نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ روس طالبان کی حمایت کرتا ہے، تاکہ افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کے ذریعے
داعش کو روس اور چین تک رسائی سے روکنا ہے۔

حالانکہ مانتتسکی نے تسلیم کیا کہ افغانستان میں دولت اسلامیہ کے خلاف لڑائی کے حوالے سے روس اور طالبان کے مشترکہ مفادات ہیں۔

اُنھوں نے روس کی تشویش کا اعادہ کیا کہ شام اور عراق میں داعش کے حلقوں میں موجود متعدد لڑاکوں کا تعلق ’’ہمارے دوستانہ وسط ایشیائی‘‘ ہمسایہ ریاستوں سے ہے۔

روسی سفارت کار نے مزید کہا کہ ممکن ہے کہ مشرق وسطیٰ کے خطے سے فارغ ہونے پر وہ اپنے ملکوں اور افغانستان واپس آنے کی کوشش کریں، جو معاملہ شدید خطرے کا باعث ہوگا۔

دریں اثنا، افغان وزارتِ خارجہ نے ’’کسی بھی ایسے گروپ کے ساتھ کسی قسم کی حمایت‘‘ برقرار رکھنے کے عمل پر انتباہ جاری کیا، جو افغانستان کو عدم استحکام کا شکار کرسکتا ہے اور ساتھ ہی علاقائی استحکام کے لیے خطرے کا باعث ہوگا۔

وزارتِ خارجہ نے ہمسایہ اور علاقائی ملکوں پر زور دیا کہ وہ ’’حکومت کے حکومت کے ساتھ تعلقات کے اصول کی پاسداری‘‘ کریں، تاکہ خطے کو درپیش مشترکہ چیلنجوں کو مؤثر طور پر حل کیا جاسکے۔

طالبان نے بھی روس کے ساتھ اپنے تعلقات کی ’’سیاسی نوعیت‘‘ کی نشاندہی کی ہے۔ اُس کے ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ طالبان کو نہ تو کوئی تعاون ملا ہے، ناہی بشمول روس، اُس نے کسی غیر ملک سے کسی نوع کی مدد کے لیے کہا ہے۔

تاہم، یہ معلوم کرنے پر آیا دولت اسلامیہ کے خلاف لڑائی میں روس نے طالبان سے مدد طلب کی ہے، مجاہد نے کہا کہ تمام ’’ہمسایہ ملکوں کے ساتھ ہمارے تعلقات کا مقصد علاقائی امن کو فروغ دینا اور ہمارے ملک کو بحران سے نکالنا ہے۔ جہاں تک روس کی جانب سے ہمارے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کی پالیسی کا تعلق ہے، وہی اس کی وضاحت کرسکتے ہیں، لیکن خطے کو متعدد مسائل کا سامنا ہے‘‘۔