موبائل فون سروس کی لوڈ شیڈنگ

پاکستان میں رہتے اکثر میں سوچتا تھا کہ پاکستان جیسے ملک میں اگرموبائل فون ٹیکنالوجی اتنی سستی ہے تو امریکہ جیسے ملک میں ممکن ہے موبائل فون استعمال کرنے پر ساتھ پیسے بھی ملتے ہوں اور ایک درجن انڈے خریدنے پر ایک سم فری ملتی ہوگی۔
چند سال قبل میرے ایک کولیگ صبح جب دفتر آتے تو اکثر نہ صر ف ان کی آنکھیں سرخ سی ہوتیں بلکہ دن بارہ بجے کے بعد انھیں نیند کا غلبہ ہونے لگتا اور وہ اکثر نیند گاڑی میں پوری کرنے کی کوشش کرتے۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہتے کہ اکثر رات دوستوں سے گھنٹوں بات کرتا رہتا ہوں تو سو نہیں پاتا۔ اب وہ دوست مرد ہوتے تھے یا خواتین یہ مجھے نہیں معلوم، لیکن وہ رات کو گھنٹوں بات کرنے کا جواز سستے ترین فون پیکچز سے استفادہ بتاتے تھے۔


پاکستان میں موبائل فون سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کے درمیان مقابلہ کیا شروع ہوا موبائل فون تو مذاق ہی بن کر رہ گیا۔ چند ماہ قبل پاکستان کی قومی اسمبلی میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی طرف سے جمع کرائے گئے تحریری جواب میں کہا گیا کہ اٹھارہ کروڑ آبادی والے پاکستان میں گیارہ کروڑ 98لاکھ آٹھ سو موبائل فون کنکشنز ہیں۔ اور یہ کہ پاکستان ایشیاء میں موبائل فون استعمال کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے۔

سیل فون کی بہتات کی وجہ کم قیمت اور کنکشن کی آسانی سے دستیابی ہے لیکن رات کے پیکجز نے اسے نوجوان نسل کی ضرورت بنا دیا ہے۔ تین روپے میں ساری رات کال ممکن ہے جبکہ ایک بندہ لاتعداد سم کارڈ ز رکھ سکتا ہے اور ضروری نہیں ان میں سے کوئی بھی سم اس کے اپنے نام پر ہو۔

پاکستان میں رہتے ہوئے میں اکثر سوچتا تھا کہ غیر ملکی قرضوں میں ڈوبے پاکستان جیسے ملک میں اگر موبائل فون ٹیکنالوجی اتنی سستی اور عام ہے تو امریکہ جیسے ملک میں ممکن ہے موبائل فون استعمال کرنے پر ساتھ پیسے بھی ملتے ہوں۔ جس طرح پاکستان میں سڑک کنارے شیشے کے بکس لیے بیٹھے گھڑی سازوں کے پاس بھی موبائل سمز دستیاب ہوتی ہیں۔ اس حساب سے مجھے توقع تھی کہ امریکہ میں ممکن ہے ایک درجن انڈے خریدنے پر ایک سم فری ملتی ہوگی۔
امریکہ میں عام موبائل صارف کے پاس فور جی ٹیکنالوجی ہے لیکن پاکستان میں ابھی تھری جی کی پلاننگ ہو رہی ہے

لیکن امریکہ آنے کے بعد مجھے حیرانی ہوئی کہ امریکہ میں سم کارڈز مخصوص ریٹیلرز کے علاوہ نہیں فروخت ہوتے اورکسی دوسرے کا نام یا بے نام کنکشن کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مجھے اصل حیرانی اس بات پر ہوئی کہ یہاں کال کرنا تو درکنار کال سننا بھی مفت نہیں۔ ان لمیٹیڈ کالز کے لیے کم از کم پچاس ڈالر دینے پڑتے ہیں جو متوسط طبقے کے لیے اتنا آسان نہیں۔ اور اس کے علاوہ دس سینٹ فی منٹ کال سننے پر بھی ادا کرنے پڑتے ہیں۔


ایک اور دلچسب بات یہ ہے کہ گوگل سے آپ پورے امریکہ میں فری کال کر سکتے ہیں لیکن موبائل فون سے فری کالز نہیں کی جا سکتیں۔ اب یہ امریکی عوام کو موبائل کالز پر وقت ضائع کرنے سے روکنے کی کوشش ہے یا کچھ اور میں نہیں جانتا۔ لیکن یہ واضح ہے کہ یہ نئی نسل کو بے راہ روی سے بچانے کی کوشش نہیں ہے کیونکہ امریکی نوجوان نسل کم از کم اظہار ِمحبت کے لیے موبائل فون کی محتاج نہیں۔

اتنا سستا تو امریکہ میں انٹر نیٹ بھی نہیں لیکن پاکستان سے سستا تو ہے ہی ساتھ ہائی سپیڈ بھی ہے۔ امریکہ میں عام موبائل صارف کے پاس فور جی ٹیکنالوجی ہے لیکن پاکستان میں ابھی تھری جی کی پلاننگ ہو رہی ہے۔ امریکہ میں ستر فیصد آبادی سمارٹ فون استعمال کرتی ہے لیکن میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ بہت کم لوگ لمبی کالز کرتے ہیں اور لوگوں کی اکثریت موبائل پر انٹرنیٹ استعمال کرتی نظر آتی ہے۔

لیکن یہ واضح ہے کہ یہ نئی نسل کو بے راہ روی سے بچانے کی کوشش نہیں ہے کیونکہ امریکی نوجوان نسل کم از کم اظہار محبت کے لیے موبائل فون کی محتاج نہیں۔
جس طرح پاکستانی حکومت کے وزیر ٹاک شوز میں موبائل فون کے بڑھتے ہوئے صارفین کو ملک کی معاشی نمو کا ایک انڈیکیٹر بتاتے ہیں میں تو سوچ رہا تھا اس حساب سے پاکستان کو ایشیا کی پانچویں بڑی معاشی قوت ہونا چائیے۔

غورطلب بات یہ ہے کہ موبائل فون کالز سستی ہونا مفید ہے یا انٹرنیٹ سستا اور معیاری ہونا زیادہ اہم ہے۔ امریکہ میں جہاں زندگی انٹرنیٹ کی محتاج ہے وہاں اتنی آسان بھی ہے۔ میرا ایک کلاس فیلو اب امریکہ کے لیے گلوبل ویلج کے بجائے گلوبل فون کی اصطلاح کو مناسب قرار دیتا ہے۔

میرے ایک دوست چند روز قبل پاکستان سے گفتگو کرتےہوئے کہہ رہے تھے کہ میں بڑا خوش تھا کہ اگر انٹر نیٹ معیاری نہ سہی فون کالزتو امریکہ سے بہت سستی ہیں لیکن اب رحمان ملک صاحب نے اس کی بھی لوڈ شیڈنگ شروع کر دی ہے۔

عبدل کا امریکہ(Facebook)