بنگلہ دیش کے ٹری مین کو اپنی صحت یابی کا یقین ہے

بنگلہ دیش کا ٹری مین، ابو لباجندر

بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کے ایک اعلیٰ درجے کے اسپتال میں علاج کے دوران بھاگ جانے والا ’ٹری مین‘ دوبارہ خود ہی اسپتال پہنچ گیا ہے جہاں ہفتے کے روز اس کا ایک اور آپریشن ہو گا۔

28 سالہ نوجوان کو اس لیے ٹری مین کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے ہاتھوں کی انگلیاں درخت کی شاخوں کی طرح پھیل رہی ہیں اور ان کی رنگت سبزی مائل ہے۔

ٹری مین ایک ایسی جلدی بیماری کا نام بھی ہے جو دنیا میں بہت ہی خال خال ہے۔ ایک محتاط تخمینے کے مطابق دنیا بھر میں اس مرض میں مبتلا افراد کی تعداد آدھی درجن سے کم ہے۔

بنگلہ دیش میں ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ ’ٹری مین‘ کی ایک بار پھر سرجری کی تیاری کی جا رہی ہے۔ اور اس سلسلے میں ٹیسٹ لیے جا رہے ہیں۔

ٹری مین، جس کا اصل نام ابولباجندر ہے، اس سے پہلے 25 بار سرجری کروا چکا ہے۔ اس کی پہلی سرجری 2016 میں اس وقت ہوئی تھی جب اس کی انگلیوں سے سبز رنگ کی درختوں کی شاخوں جیسی شاخیں پھوٹنا شروع ہو گئیں تھیں اور پھر کچھ ہی عرصے میں وہ اتنی پھیل گئیں کہ ہاتھ سے کام کرنا، حتی کہ اپنے ہاتھوں سے کھانا پینا بھی ممکن نہیں رہا۔

اسپتال کے جلدی امراض ماہرین کا کہنا ہے کہ باجندر میں بیماری کی علامتیں انتہائی شدید ہیں، جو اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئیں۔باجندر اس وقت عالمی میڈیا پر شہ سرخبروں کا موضوع بنا ہوا ہے۔

چند سال پہلے تک ابو لباجندر رکشا چلا کر اپنی روزی کماتا تھا اور اس سے اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتا تھا۔ لیکن اس مرض میں مبتلا ہونے کے بعد سے وہ بے روزگار ہو گیا ہے۔

2016 میں جب پہلی بار مرض کی علامتیں ظاہر ہوئیں تو ڈاکٹروں نے سرجری کر کے انگلیوں سے پھوٹنے والی سبز شاخوں کا کاٹ دیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ صحت یاب ہو گیا ہے لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد اس کا مرض پہلے سے زیادہ شدت سے لوٹ آیا۔

بنگلہ دیش کے ڈاکٹروں کو یقین ہے کہ وہ باجندر کو اس بیماری سے چھٹکارہ دلانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور اس بیماری کا علاج ڈھونڈ کر ایک نئی تاریخ رقم کر دیں گے۔

باجندر کی عمر 28 سال ہے اور وہ ایک بار پھر سرجری کے لیے ڈھاکہ کے میڈیکل کالج ہاسپیٹل میں لوٹ آیا ہے جہاں وہ زیر علاج تھا اور اس کی 25 بار سرجری کی گئی تھی۔

گزشتہ سال مئی میں مرض کی علامتیں دوبارہ ظاہر ہونے کے بعد وہ مایوس ہو کر کسی کو بتائے بغیر اسپتال سے بھاگ گیا تھا۔ لیکن جب مرض برداشت کے قابل نہ رہا تو اسے دوبارہ واپس آنا پڑا۔

پیر کے روز ایک خبررساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے باجندر نے بتایا کہ بیماری پہلے سے بڑھ گئی ہے اور اب ہاتھوں کے ساتھ ساتھ ٹانگوں میں بھی سبز شاخیں نکلنا شروع ہو گئی ہیں۔ میں نے اسپتال چھوڑ کر غلطی کی تھی۔ مجھے امید ہے کہ اس بار ڈاکٹر میرا مکمل علاج کر لیں گے۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ باجندر کا مرض اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے جتنا ہم سوچ رہے تھے۔ اب اس سلسلے میں مزید ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔

ڈاکٹروں نے میڈیا کو بتایا کہ ہفتے کے روز باجندر کی 26 ویں سرجری ہو گی۔

اسپتال کے پلاسٹک سرجری شعبے کے سربراہ ڈاکٹر سمنتا لال سین نے اے ایف پی کو بتایا کہ مئی میں اسپتال سے بھاگ جانے کے بعد سے باجندر کا 40 فی صد مرض واپس آ گیا ہے۔ ہم ایک بار پھر سرجری کی تیاری کر رہے ہیں۔

بنگلہ دیش کی حکومت نے باجندر کا مفت علاج کرنے کا اعلان کیا ہے اور اسے بنگلہ دیش کے چوٹی کے اسپتال میں کسی معاوضے کے بغیر تمام طبی سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔

بنگلہ دیش میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ 2017 میں اسی اسپتال میں’ ٹری مین مرض ‘میں مبتلا ایک نوجوان لڑکی کی سرجری کی گئی تھی اور ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ وہ پوری طرح صحت یاب ہو گئی ہے۔ لیکن حال ہی میں لڑکی کے والد نے میڈیا کو بتایا کہ بیماری پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ لوٹ آئی ہے۔ وہ اپنی بیٹی کو لے کر اپنے گاؤں واپس چلا گیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ تھک گیا ہے ۔ اب وہ مزید علاج نہیں کرائے گا۔

لیکن باجندر مایوس نہیں ہوا۔ اس کا کہنا ہے کہ ایک روز وہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا اور دوبارہ رکشہ چلا کر اپنے گھروالوں کو پالنے لگے گا۔ اس کا کہنا ہے کہ صرف میرے گھر والے ہی نہیں بلکہ پورا ملک میرے لیے دعائیں کر رہا ہے۔ اس لیے میں ضرور صحت یاب ہو جاؤں گا۔