بیروت دھماکے کے بعد امدادی کارروائیاں

دھماکے کو تین روز گزر گئے ہیں جب کہ متاثرہ علاقوں میں بڑے پیمانے پر امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔ حکام ہلاکتیں بڑھنے کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔

 

بیروت میں دھماکے کے بعد تاحال معمولات زندگی معمول پر نہیں آ سکے۔ 2005 میں سابق وزیر اعظم رفیق حریری کے قتل کے بعد لبنان عدم استکام کا شکار ہی رہا ہے۔

بندرگاہ دھماکے سے ہونے والی تباہی اور ملبہ ہٹانے کے لیے ہزاروں رضا کار دن رات کام کر رہے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ملبہ ہٹانے میں کئی روز لگ سکتے ہیں۔

دھماکے ایسے وقت میں ہوئے جب ملک کو گزشتہ کئی سالوں سے بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے۔ کئی سالوں سے ملک میں کرپشن اور بڑھتی ہوئی معاشی بدحالی کے باعث بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے بھی ہوتے رہے ہیں۔
 

دھماکے کی وجہ سے ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے ہیں جب کہ کئی عمارتیں دراڑ پڑنے سے کمزور ہو گئی ہیں۔
 

جمعرات کو فرانس کے صدر ایمانوئیل میکخواں نے بیروت کا دورہ کیا اور لیبانی عوام کو ہر ممکن امداد کا یقین دلایا ہے۔

بیروت دھماکے کے بعد امدادی کاموں میں روسی رضا کاروں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ ان رضا کاروں نے زخمیوں کے علاج کی غرض سے ایک عارضی اسپتال بھی قائم کیا ہے۔

امدادی کاموں میں مصروف رضا کاروں نے بیروت میں واقع مختلف شاپنگ مالز سے بھی ملبہ ہٹانے کا کام کیا۔جن دکانوں سے ملبہ ہٹانے کا کام مکمل ہوچکا ہے وہ خریداروں کے لیے کھول دی گئیں۔