بھارت کی حزبِ اختلاف کی بڑی جماعت کانگریس نے الزام عائد کیا ہے کہ راجستھان کے شہر ادےپور میں توہینِ مذہب کے نام پر ہندو درزی کے قتل کے ملوث ایک ملزم کا تعلق مرکز میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے ہے۔
کانگریس نے بھارتی نشریاتی ادارے ’انڈیا ٹوڈے‘ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا ہے جس میں حملہ آوروں میں سے ایک ریاض اٹاری کو الگ الگ تصاویر میں ریاستی بی جے پی کے کئی رہنماؤں کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔
سینئر کانگریس رہنما پون کھیڑہ نے ہفتے کو نئی دہلی میں نیوز کانفرنس میں کہا کہ ایک میڈیا گروپ نے انتہائی سنسنی خیز انکشاف کیا ہے جو اشارہ کرتا ہے کہ ملزم ریاض اٹاری عرف ریاض اختری کا تعلق بی جے پی سے ہے۔
भाजपा का सच बेनकाब हो चुका है-ये संयोग नहीं भाजपाई प्रयोग था।#BJPFakeNewsFactory pic.twitter.com/NFn2F4dOwc
— Congress (@INCIndia) July 2, 2022
انہوں نے الزام عائد کیا کہ کیا یہی وجہ ہے کہ مرکزی حکومت نے کسی تاخیر کے بغیر اس معاملے کو نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کے حوالے کیا تاکہ معاملے کو دبایا جا سکے۔
پون کھیڑہ نے نیوز کانفرنس میں بی جے پی کے ریاستی اقلیتی شعبے کے رہنماؤں ارشاد چائنا والا اور محمدطاہر کے ساتھ ریاض کی تصاویر پیش کیں جب کہ مختلف سوشل میڈیا پوسٹ بھی دکھائیں۔
@Pawankhera in a sensational press conference shares evidence on #Udaipur Horror accused Mohammad Rafiq%27s connection with BJP%27s Gulab Chand Kataria and his participation in several party programmes. pic.twitter.com/8oa7SM0xdJ
— Maanmohan Singh Pahujaa (@msgpahujaa) July 2, 2022
انہوں نے مزید کہا کہ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ بی جے پی کی ریاست راجستھان کی اقلیتی شاخ کی اجلاسوں میں ریاض کی شرکت کی تصاویر بھی موجود ہیں۔
اس حوالے سے مزید تفصیلات پیش کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بی جے پی لیڈر ارشاد چائنا والا کی جانب سے 30 نومبر 2018 کو اور محمد طاہر کی جانب سے تین فروری 2019، 27 اکتوبر 2019، 10 اگست 2021، 28 نومبر 2019 اور دیگر تاریخو ں میں فیس بک پر کی جانے والی پوسٹس سے واضح ہوتا ہے کہ ریاض اٹاری صرف بی جے پی رہنماؤں کے قریب ہی نہیں تھا بلکہ وہ بی جے پی کا سرگرم رکن بھی تھا۔
हम समझ सकते हैं कि फेसबुक पर तस्वीरें सामाजिक कार्यक्रमों की भी हो सकती हैं। लेकिन फेसबुक पोस्ट स्पष्ट कर रही है कि कन्हैयालाल का हत्यारा आतंकी रियाज अटारी भाजपा का सक्रिय सदस्य है: श्री @Pawankhera#BJPFakeNewsFactory pic.twitter.com/Eiuk8LWOQl
— Congress (@INCIndia) July 2, 2022
بی جے پی کی تردید
بی جے پی نے کانگریس کے الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔ بی جے پی کی ریاست راجستھان کی اقلیتی شاخ کے صدر صادق خان نے ایک نیوز کانفرنس میں الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ملزم کا بی جے پی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
بی جے پی کے آئی ٹی سیل کے چیف امت مالویہ نے اسے ایک ’فیک نیوز‘ (جعلی خبر) قرار دیا اور اس واقعے کو کانگریس کی ریاست راجستھان میں قائم حکومت کی ناکامی قرار دیا۔
سوشل میڈیا پر ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ انہیں حیرت نہیں ہے کہ کانگریس ایک فیک نیوز دکھا رہی ہے۔
ان کے مطابق ادے پور میں درزی کے قاتل بی جے پی کے رکن نہیں ہیں۔ بی جے پی میں ان کے داخل ہونے کی کوشش ویسی ہی تھی جیسی کہ سری لنکا کی عسکریت پسند تنظیم ایل ٹی ٹی ای نے راجیو گاندھی کو ہلاک کرنے کے لیے کانگریس میں گھسنے کی کوشش کی تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کانگریس کو دہشت گردی اور قومی سلامتی کے حوالے سے لوگوں کو بے وقوف بنانا بند کر دینا چاہیے۔
I am not surprised that you are peddling #FakeNews.The Udaipur murderers WERN’T members of the BJP. Their attempt to infiltrate was like the LTTE assassin’s attempt to enter the Congress to kill Rajiv Gandhi.Congress should stop fooling around with terror and national security. https://t.co/Nn5FKzxiwS
— Amit Malviya (@amitmalviya) July 2, 2022
ایک اور شخص کا قتل بھی تنازعے سے منسلک
دریں اثنا مہاراشٹر کے شہر امراوتی میں ایک 54 سالہ کیمسٹ کے قتل کے بارے میں حکام شبہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اسے سوشل میڈیا پر بی جے پی کی معطل ترجمان نوپور شرما کی حمایت میں کی جانے والی پوسٹ کی وجہ سے نشانہ کیا گیا ہے۔
ادے پور میں ہندو درزی کنہیا لال کے قتل سے ایک ہفتہ قبل امراوتی میں کیمسٹ امیش پرہلاد راو کولہی کو چاقو مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔
بی جے پی کے مقامی رہنماؤں نے اس معاملے میں پولیس کو ایک خط بھی دیا ہے جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ اس شخص کا قتل انتقامی کارروائی کے تحت کیا گیا۔
#WATCH Umesh Kolhe murder case | A total of six accused have been arrested so far from Amravati. During the investigation, we found that Umesh Kolhe had posted on social media in support of Nupur Sharma and this incident took place because of that post: Vikram Sali, DCP Amravati pic.twitter.com/0XRnfWjWXS
— ANI (@ANI) July 2, 2022
مقامی پولیس حکام نے میڈیا کو خط ملنے کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
اس بارے میں ایک ایف آئی آر درج کی گئی ہے اور پانچ افراد کو گرفتاربھی کیا گیا ہے۔
ایک پولیس افسر نے ’پریس ٹرسٹ آف انڈیا‘ (پی ٹی آئی) کو بتایا کہ امراوتی شہر میں کولہی ایک میڈیکل اسٹور چلاتے تھے۔ انہوں نے نوپر شرما اور ان کے بیان کی حمایت میں ایک واٹس ایپ گروپ پر پوسٹ ڈالی تھی۔
پولیس افسر کے مطابق انہوں نے غلطی سے ایک ایسے واٹس ایپ گروپ پر بھی اسے شیئر کر دیا تھا جس کے کچھ رکن مسلمان بھی تھے۔
مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے این آئی اے کو ہدایت کی ہے کہ وہ امراوتی قتل معاملے کی جانچ کرے۔
MHA has handed over the investigation of the case relating to the barbaric killing of Shri Umesh Kolhe in Amravati Maharashtra on 21st June to NIA.The conspiracy behind the killing, involvement of organisations and international linkages would be thoroughly investigated.
— गृहमंत्री कार्यालय, HMO India (@HMOIndia) July 2, 2022
وزارتِ داخلہ کے ایک بیان کے مطابق 21 جون کو امراوتی میں امیش کولہی کے قتل کے معاملے کو این آئی اے کو سونپ دیا گیا ہے۔
بیان کے مطابق اس قتل کی سازش اور اس میں ملوث تنظیموں اور بین الاقوامی تعلق کی بھی تحقیقات کی جائیں گی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس نے اس معاملے میں اب تک پانچ افراد مدثر احمد، شیخ ابراہیم، شاہ رخ پٹھان خان، عبد التوفیق تسلیم، شعیب خان اور عاطف رشید کو گرفتار کیا ہے۔
توفیق تسلیم کے علاوہ کسی کا بھی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے۔ توفیق کے خلاف ایک مسجد پر جھگڑے کے سلسلے میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔