موسمیاتی تبدیلی تیز تر، آلودگی کا مداوا سست تر: اوباما

بین الاقوامی تعاون کی اپیل کرتے ہوئے، صدر اوباما نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کی رفتار تیز تر ہے، جب کہ رکن ممالک کی طرف سے کاربن کے اخراج اور دیگر موسمی آلودگیوں سے نمٹنے کے اقدامات بے حد سست روی کا شکار ہیں

ماحولیاتی تبدیلی سے نبردآزماز ہونے، اور کاربن کے اخراج کے کنٹرول کی کوششوں کے سلسلےمیں بین الاقوامی تعاون کی اپیل کرتے ہوئے، صدر اوباما نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی رفتار تیز تر ہے، جب کہ رکن ممالک کی طرف سے کاربن کے اخراج اور دیگر موسمی آلودگیوں سے نمٹنے کے اقدامات بے حد سست روی کا شکار ہیں۔

صدر اوباما نے یہ بات منگل کے روز اقوام متحدہ کے زیر اہتمام موسمیات سے متعلق سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

صدر اوباما نے کہا کہ امریکہ نے 2020ء تک کاربن کے اخراج کو 2005ء کی آلودگی کی سطح میں 17 فی صد کمی لانے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے، ’جسے حاصل کیا جائے گا‘۔

اس موقعے پر اُنھوں نے عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے امریکہ کی طرف سے متعدد اقدام لینے کا اعلان کیا۔

سربراہ اجلاس کا مقصد 2015ء کے اواخر تک نئے عالمی موسمیاتی معاہدے کے لیے ممالک کو متحرک کرنا ہے۔

بقول صدر، ’خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے۔ ہمارے شہری ریلیاں نکال رہے ہیں۔ ہم اس بات سے صرف نظر نہیں کر سکتے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں سنائی نہیں دے رہا۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم خاطر خواہ جواب دیں۔ ہمیں چاہیئے کہ کاربن کے اخراج میں کمی لائیں، تاکہ بدترین اثرات سے بچا جا سکے۔ عالمی برادری کی حیثیت سے، ہمیں مل کر اس کا مداوا کرنا ہے، تاکہ وقت ہاتھ سے نکلنے سے پہلے ہم اس عالمی خطرے سے نمٹ سکیں‘۔

صدر نے کہا کہ موسمی آلودگی پیدا کرنے کے ضمن میں، امریکہ اور چین سب سے آگے ہیں، اس لیے اُن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس حوالے سے ضروری اقدامات لینے میں بھی سب سے آگے ہوں۔

تاہم، اُنھوں نے کہا کہ کوئی واحد ملک اپنے طور پر اس عالمی خطرے سے نہیں نمٹ سکتا۔

اس سے قبل، اپنی تقریر میں، اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل، بان کی مون کا کہنا تھا کہ ’یہ وہ سیارہ ہے جس پر ہماری آنے والی نسلیں رہیں گی، اس کا کوئی متبادل نہیں، کیونکہ ہمارے پاس کوئی اور متبادل سیارہ نہیں۔‘