دو جمع دو، چار ہوتے ہیں

حساب کے ایک ماہر کے بقول، ریاضی تو ہر سائنس کی ماں ہے۔ اور اسمارٹ فون، کمپیوٹر سے لے کر دوسرے جدید آلات اور دور حاضر کی ترقی کے پیچھے ریاضی ہی کار فرما ہے: حساب کے ماہر
کسی بہت ہی آسان اور واضع بات کی مثال دینے کے لئے، اکثر و بیشتر، ہم یہ کہتے ہیں کہ، ’دو جمع دو، چار ہوتے ہیں‘۔

دراصل، یہ جملہ ریاضی کا ایک آسان سا سبق ہے۔ اور ریاضی سیکھنے والے بچے ایسے بنیادی سوالات کے جواب دیتے دیتے ایک دن ریاضی کے مشکل اور پیچیدہ معاملات کو بھی سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔

لیکن، کیا وجہ ہے کہ تمام بچے ریاضی میں مہارت حاصل نہیں کر پاتے؟


ریاضی دان، ڈرامہ نگار اور ’جمپ میتھ‘ کے نام سے بچوں میں ریاضی میں دلچسپی اور سمجھ بڑھانے کے کارخیر میں مصروف ادارے کے بانی جان مائٹن ’فار دی لو آف میتھ‘ میں لکھتے ہیں کہ مناسب سبق کی مدد سے اساتذہ کمزور طالب علموں کو ریاضی کا ماہر بنا سکتے ہیں۔

بچوں میں ریاضی کی اصل صلاحیت کو سمجھنے اور یہ جاننے کے لئے کہ کیوں بہت سارے بچوں کو ریاضی اتنی مشکل لگتی ہے، جان مائٹن نے ’جمپ میتھ‘ نامی ادارے کی بنیاد رکھی اور آج کینیڈا میں ایک لاکھ سے زیادہ بچے اس پراگرام سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور امریکہ میں بھی اس پراگرام پر کام ہو رہا ہے۔

جان مائٹن کے مطابق، بہت ساری پریکٹس، طالب علموں کی کارکردگی پر فوری رائے دینا، ریاضی کے سوالات حل کرنے کے لئے عام حکمت عملی سمجھانا اور ریاضی کے تصورات کو سمجھنے کے لئے مشکل سوالات کو چھوٹے ٹکڑوں میں توڑ کر سمجھانا مدد گار ثابت ہوتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ بچے چھوٹی عمر سے ہی اپنا موازنہ دوسرے بچوں کے ساتھ کرنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ فیصلہ کرلیتے ہیں کہ وہ پڑھائی کے میدان میں کس موضوع میں اچھے ہیں اور کس میں نہیں اور پھر جس موضوع میں وہ کمزور ہوتے ہیں اس میں محنت کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور ریاضی میں یہ مسلہ سب سے زیادہ ہے کیوں کہ ریاضی میں اگر ایک چیز سمجھ نہ آئے تو اگلی تو بلکل بھی نہیں آتی اور یوں بچے کی کارکردگی گرتی چلی جاتی ہے۔

کراچی میں اس موضوع پر بات کرتے ہوئے والدین نے اپنے بچوں کو ریاضی میں پیش آنے والے مسائل کا ذکر کیا۔ لیکن، اکژ نے ساتھ ہی ساتھ کسی ایسے استاد کا بھی ذکر کیا کہ جس کی وجہ سے ان کے بچوں کی ریاضی میں کارکردگی میں بہتری آئی ، ایسے ہی ایک استاد کراچی سے تعلق رکھنے والے سالم اکبر ہیں جو ایک دہائی تک بچوں کو خصوصی طور پر ریاضی پڑھاتے رہے۔

سالم اکبر کراچی سے بزنس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد قطر چلے گئے اور پچھلی ایک دہائی سے زائد عرصے سے قطر کے دارلحکومت دوہا میں اعلیٰ عہدوں پر فرائض انجام دے رہے ہیں اور اپنی کامیابیوں میں ریاضی کو بہت اہم قرار دیتے ہیں۔

’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے سالم اکبر نے کہا کہ ریاضی ہر بچے کے لئے لازم ہے چاہے وہ بڑا ہو کر کسی بھی شعبے میں کام کرنا چاہتا ہو اور یہ ہی وجہ ہے تاریخ میں بڑے بڑے فلسفی، شاعر اور فنکار ریاضی کے بھی ماہر تھے۔ مثلاً، عمر خیام۔

اُن کا کہنا تھا کہ ریاضی تو ہر سائنس کی ماں ہے اور اسمارٹ فون، کمپیوٹر سے لے کر دوسرے جدید آلات اور دور حاضر کی ترقی کے پیچھے ریاضی ہی کار فرما ہے۔


سالم اکبر نے مزید کہا کہ بچوں کو ریاضی پڑھاتے وقت اس بات کو یاد رکھنا چاہئے کہ جب تک استاد خود اچھی طرح سے ریاضی کے اصولوں کو نہیں سمجھتا وہ طالب علموں کو آسان انداز اور الفاظ میں نہیں سمجھا سکتا؛ اور، دوسرے یہ کہ بچے ایک ہی سوال کتنی ہی بار پوچھیں ان کو جواب دینا چاہئے، تاکہ ان کی حوصلہ شکنی نہ ہو۔