اسکائی ڈائیور، فیلکس باؤم گارٹنر نے ’ساؤنڈ بیریئر‘ توڑ دیا

Austrian skydiver Felix Baumgartner File Photo

فیلکس باؤم گارٹنر نے وہ کچھ کیا جو اب تک ایک خواب تھا۔ ایک لاکھ 20ہزار فٹ بلندی پر ہوا کا دباؤ دو فی صد سے بھی کم تھا۔ آکسیجن کے بغیر سانس لینا ناممکن تھا
’ساؤنڈ بیریئر‘ توڑنے کےمصمم عزم لیے، نڈر اسکائی ڈائیور فیلکس باؤم گارٹنر نے بالآخر اتوار کو تاریخ رقم کرلی۔

فیلکس نے خلائی کیپسول سے باہر آکر زمین کے اوپر 128100 فٹ یا 24.26 میل کی چھلانگ لگائی، جو سطح جیٹ طیاروں کی عام پرواز سے تین گنا زیادہ اونچی سطح ہے۔

اسکائی ڈائیور 4.20 سیکنڈ تک فوق الفطرتی رفتار سےنیچےآتے گئے، اور اس طرح تاریخ کا حصہ بنتے گئے۔ تیز ترین رفتار اور فضا کی سخت ترین چپیڑ میں نیچے آتے ہوئے اُن کے گِرد کی پلیٹ جمتی گئی۔

خلائی کیپسول سے باہر آنے کے فوری بعد باؤم گارٹنر نے خطرناک زاویوں سے جھٹکے کھائے۔

باؤم گارٹنر نے بتایا کہ یوں لگا جیسے گرداب کے حوالے ہوچکا ہوں اور اوندھا سیدھا ہونا بس میں نہیں رہا۔ ’میرے سر پر سخت دباؤ تھا، لیکن مجھے لگا کہ میں اپنے اوپر دوبارہ کنٹرول حاصل کرلوں گا، تاکہ میں آواز کی رفتار کے بیرئیر کو توڑ سکوں‘۔

برائن اُٹے ایف آئی اے کی طرف سے مہم کی توثیق سے متعلق کام کے ذمہ دار تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک منٹ کی چھلانگ میں وہ 833.9 میل فی گھنٹہ کی رفتار کو طے کرگئے، جو ایک اسکائی ڈائیور کے لیے ایک نیا عالمی ریکارڈ ہے۔

اِس کا یہ بھی مطلب ہوا کہ اُنھوں نے کامیابی کے ساتھ ساؤنڈ بیریئر توڑا، اورMach 1.24تک پہنچ چکے۔

اُنھوں نے بلند ترین سطح پر انسانی بیلون کی پرواز کا ریکارڈ بھی قائم کیا، اور غیر سرکاری طور پر 25میل کی لگ بھگ سطح تک پہنچے۔ اُنھوں نے یہ کامیابی ایک غبارے میں طے کی جو اب تک کا سب سے بڑا بیلون تھا جس میں ایک انسان سوار تھا۔

باؤم بارٹنر کا تعلق آسٹریا سے ہے۔

اس شیر دل نے خلا کے کنارے سے چھلانگ لگا کر اب تک کے تمام ریکاڈ توڑ ڈالے، اور اس طرح وہ ساؤنڈ بیریئر توڑنے والے دنیا کے پہلے اسکائی ڈائیور بن گئے ہیں۔

خلائی کیپسول کے کنارے پر کھڑے، باؤم گارٹنر کہہ رہے تھے کہ، ’میری خواہش ہے کہ کاش دنیا بھی وہ کچھ دیکھ سکے جو میں دیکھ رہا ہوں‘۔

زمین پر اترنے کے بعد، اُنھوں نے کہا کہ کیپسول کی سطح سے چھلانگ کے بعد میں سوچ رہا تھا کہ کیا میں زمین کی سطح تک زندہ پہنچ بھی سکوں گا؟

’اتنی اونچائی پر آپ اتنےحقیر و عاجز ہو چکے ہوتے ہیں کہ آپ کو مزید ریکارڈ قائم کرنے کی مہم کا نہیں سوچ سکتے۔ بس، آپ واپس لوٹنا چاہتے ہیں۔‘


’ایک لاکھ 20ہزار فٹ بلندی پر ہوا کا دباؤ دو فی صد سے بھی کم تھا۔ آکسیجن کے بغیر سانس لینا ناممکن تھا‘۔