افغان امن و مفاہمت، مذاکرات کا مستقبل غیر واضح: مائیکل ملیبن

فائل

طالبان ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد کے بقول، ’ہمارے علما بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں، جس کا مقصد ہمارے چند ناراض بھائیوں کی جانب سے ظاہر کی گئی تشویش اور تحفظات کو دور کرنا ہے‘

یورپی یونین کے نمائندہٴخصوصی برائے افغانستان، فرانز مائیکل ملیبن نے افغان امن اور مفاہمت کے مستقبل کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے، جس ضمن میں اُنھوں نے پرتشدد کارروائیوں اور طالبان لیڈر ملا اختر منصور کو درپیش اندرونی اختلافات کا ذکر کیا۔

اُنھوں نے یہ بات جمعے کے روز اسلام آباد کے سرکاری تحویل میں کام کرنے والے ادارے،’انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز‘ سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

بقول اُن کے، ’وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو طالبان کے اندر منصور کو ایک سرکردہ شخصیت اور ایک ایسا فرد خیال کیا جاتا رہا ہے جو امن مذاکرات سے وابستہ رہے ہیں۔ مقابلہ کیا جائے تو دوسروں کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ لیکن، اُنھوں ایسا انداز اپنایا ہے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایسے شخص ہیں جو مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے طالبان پر دباؤ کی صورت میں رابطے کا سوچ سکتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا وہ قائدانہ فرد کی حیثیت سے جمے رہیں گے۔ اس وقت ایسا لگ رہا ہے کہ وہ اپنی پوزیشن مضبوط کرلیں گے۔ کہا نہیں جاسکتا، آیا وہ کچھ انتظار کے بعد مذاکرات کی میز کی طرف لوٹیں گے اور اُس سلسلے کو بحال کریں گے جہاں یہ سلسلہ منقطع ہوا ہے‘۔

گذشتہ ماہ کے اواخر میں یہ انشکاف ہوا کہ طالبان کے اعلیٰ ترین لیڈر، ملا عمر دو سال سے زیادہ عرصہ قبل انتقال کرگئے تھے۔ اُن کے جانشین کے معاملے کو حل کرنے کے لیے، افغانستان کے طالبان باغیوں کے چوٹی کے رہنما کئی دنوں سے اجلاس کر رہے ہیں۔ اسلام آباد سے ایاز گل نے اپنی رپورٹ دی ہے، جس ہمسایہ ملک میں، بتایا جاتا ہے کہ طالبان کی یہ خفیہ بات چیت جاری ہے۔

طالبان ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد نے جمعے کے روز ’وائس آف امریکہ‘ کو اس بات کی تصدیق کی کہ اس معاملے کے حل کے لیے علما اور زعما اجلاس کرتے رہے ہیں۔ تاہم، اُنھوں نےاجلاس کے مقام کے بارے میں کچھ بتانے سے احتراز کیا۔

مجاہد کے بقول، ’ہمارے علما بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں، جس کا مقصد ہمارے چند ناراض بھائیوں کی جانب سے ظاہر کی گئی تشویش اور تحفظات کو دور کرنا ہے‘۔

اُنھوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ طالبان کی قیادت میں شگاف یا اصل اختلاف رائے کے بارے میں دی جانے والی خبریں غلط ہیں اور یہ کہ تنظیم کی یکجہتی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔

ملا عمر کے جانشین، ملا اختر منصور کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے مخالفین کے حلقوں میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جن میں مرحوم کے اہل خانہ کے ارکان و دیگر اعلیٰ طالبان کمانڈر بھی شامل ہیں۔

شاذ و نادر دیے جانے والے ایک انٹرویو میں، نئے طالبان لیڈر کے ایک سیاسی مشیر، عبدالحئی مطمئن نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ شدید اندرونی اختلافات سے متعلق میڈیا اطلاعات درست نہیں۔

مطمئن نے بتایا کہ طالبان کمانڈر اور طویل مدت کے اتحادی کو نئی قیادت پر کوئی اعتراض نہیں ہے، کیونکہ منصور ملا عمر کے نائب تھے اور جب ملا عمر زندہ تھے، وہ طالبان کے سیاسی اور فوجی امور کے حوالے سے رہنمائی کیا کرتے تھے۔

مطمئن کے بقول، ’شوریٰ کے زیادہ تر ارکان (طالبان کی قائدانہ تنظیم) نے منصور کی حمایت کی ہے۔ وہ بہترین انتخاب تھے، کیونکہ وہ چھ یا سات برس سے طالبان امور کا انتظام چلاتے رہے ہیں‘۔

مطمئن نے آئندہ دِنوں کے دوران افغان حکومت سے امن مذاکرات کے امکان کو بھی مسترد کیا۔

منصور نے اپنے افتتاحی کلمات میں کابل کے ساتھ بات چیت کو مسترد کیا اور غیر ملکی افواج اور افغان حکومت کے خلاف بغاوت جاری رکھنے کا عہد کیا۔