بھارت: کشمیری طلبہ کی ایک ساتھ یونیورسٹی چھوڑنے کی دھمکی

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، طلبہ کا احتجاج

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم بارہ سو سے زائد کشمیری طلبہ اور طالبات نے اعلان کیا ہے کہ اگر ان کے تین ساتھیوں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ واپس نہیں لیا جاتا ہے اور انہیں مقامی پولیس اور انتظامیہ کی طرف سے مبینہ طور پر ہراساں کرنے کا سلسلہ نہیں رکتا تو وہ سب ایک ساتھ یونیورسٹی چھوڑ کر کشمیر لوٹ جائیں گے۔

یونیورسٹی حکام نے چند روز پہلے دو کشمیری طلبہ کو یونیورسٹی کے ایک سابق طالبعلم منان بشیر وانی جو عسکریت پسندوں کی صف میں شامل ہوگیا تھا کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھنے کی کوشش کرنے پر معطل کیا تھا۔ اس کے علاوہ سات طلبہ کے نام اظہار وجوہ نوٹس جاری کئے گئے۔ اس کے بعد مقامی پولیس نے تین طلبہ کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کر لیا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے یونیورسٹی کے اندر بھارت مخالف نعرے لگائے تھے۔

علی گڑھ کے ایک سینئر پولیس افسر اجے ساہنی نے بتایا کہ تین طلبہ کے خلاف بھارت مخالف نعرے لگانے پر مقامی پولیس تھانے میں ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے۔

کشمیری طالبعلموں کے ایک ترجمان سجاد سبحان راتھر نے اس الزام کی سختی کے ساتھ تردید کی اور کہا کہ کشمیری طلبہ کو نہ صرف مختلف بہانے بنا کر مسلسل ہراساں کیا جا رہا ہے بلکہ انہیں جھوٹے مقدمات میں بھی پھنسایا جا رہا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ جن طلبہ کے نام وجہ بتاؤ نوٹس جاری کئے گئے ہیں ان میں سے پانچ پہلے سے یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو چکے ہیں جو یہ ثابت کرتا ہے کہ طالبعلموں کے خلاف کارروائی یونیورسٹی کے ایک ہال میں منان وانی کی ہلاکت کے بعد منعقد کئے گئے ایک خاموش جلسے کے حوالے سے تحقیقات کئے بغیر کی گئی ہے۔

منان وانی جن کا تعلق وادئ کشمیر سے تھا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے تھے لیکن انہوں نے اس سال جنوری میں پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لئے ریسرچ ادھوری چھوڑ کر خاموشی کے ساتھ واپس وادئ کشمیر کا رُخ کیا۔ اُن کے اچانک لاپتہ ہونے کے چند دن بعد سوشل میڈیا میں اُن کی ایسی تصویریں ڈالی گئیں جن میں انہیں ایک اے کے 47 بندوق ہاتھوں میں تھامے دیکھا جاسکتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں سرگرم سب سے بڑی مقامی عسکری تنظیم حزب المجاہدین کی طرف سے یہ اعلان ہوا کہ منان وانی نے تعلیم کو خیر باد کہہ کر "وطن کی آزادی کے لئے مسلح جدوجہد کا حصہ بن کر ہماری تنظیم میں شامل ہونے کو ترجیح دی ہے"۔

11 اکتوبر کو منان وانی اور اُن کے ایک قریبی ساتھی کو بھارتی حفاظتی دستوں نے شورش زدہ بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے سرحدی ضلع کپوارہ میں کئی گھنٹے تک جاری رہنے والی ایک جھڑپ کے دوراں ہلاک کیا تھا۔

​منگل کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کشمیری طلبہ نے ایک احتجاجی دھرنا دیا۔ اس سے پہلے ان کے ایک ترجمان نے نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم بارہ سو سے زیادہ طالبعلم اپنا کیس 16 اکتوبر کو یونیورسٹی میں یومِ سر سید تقریبات کے موقعے پر ہونے والے المنائی میٹنگ کے دوران پیش کریں گے اور پھر اگلے دن یعنی 17 اکتوبر کو ایک ساتھ کیمپس چھوڑ دیں گے۔

اس صورتِ حال کے بعد بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک نے منگل کی صبح بھارت کے وفاقی وزیر برائے انسانی وسائل پرکاش جاویدیکر اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور کو الگ الگ فون کر کے ان سے کہا کہ وہ یونیورسٹی میں کشمیری طالبعلموں کے لیے تعلیم آسانی سے جاری رکھنے کو یقینی بنائیں۔

سرینگر میں راج بھون (گورنر ہاؤس) سے جاری کئے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے۔" گورنر نے ان پر زور دیا کہ پیدا شدہ مسئلے کو فوری طور پر حل کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کشمیری طالبعلموں کے تعلیم حاصل کرنے کے عمل میں کسی قسم کا رخنہ نہ پڑے بلکہ انہیں آسانی کے ساتھ ایک مامون، محفوظ اور اچھے تعلیمی ماحول میں تعلیم کو جاری رکھنے کی اجازت دی جائے".


بعد ازاں، علی گڑھ سے منگل کی شام سرینگر پہنچنے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ یونیورسٹی حکام نے دو کشمیری طلبہ کو معطل کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے۔ سات دوسرے طلبہ کے نام جاری کیے گئےجواب طلبی کے نوٹس بھی منسوخ کئے جا رہے ہیں۔
اس کی تصدیق کرتے ہوئے یونیورسٹی کے ایک عہدیدار عمر پیرزادہ نے بتایا کہ واقعے کی تحقیقات کے لئے قائم کی گئی کمیٹی علی گڑھ کی ضلعی انتظامیہ سے رابطہ قائم کرے گی، تاکہ پولیس کی طرف سے تین کشمیری طلبہ کے خلاف دائر کی گئی ایف آئی آر کو فوری طور پر کالعدم قرار دیا جاسکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "ہم نے ہمیشہ کہا ہے اور ہم آج اس کا اعادہ کرتے ہیں کہ انتطامیہ کی طرف سے کسی بھی طالبعلم کو جور و تعدی کا ہدف نہیں بنایا جائے گا"۔
اس سے پہلے بھارتی ریاست اُتر پردیش کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (لاء اینڈ آرڈر) آنند کمار نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ "طلبہ سے بات ہو رہی ہے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے رجسٹرار اور دوسرے ذمہ داروں کی طرف سے انہیں سمجھانے بجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بقول اُن کے ’’پولیس کی طرف سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کسی کے خلاف بغیر واضح ثبوت کے کارروائی نہیں ہوگی۔ مقامی پولیس سے کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں جو کیس رجسٹر ہوا ہے اُس پر سوچ سمجھ کر کارروائی کی جائے۔ اگر واقعی قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے تب ہی کوئی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ کسی کو بِلا وجہ تنگ نہیں کیا جائے گا"۔