پاک بھارت تنازعات کا ’’باہمی‘‘ حل تلاش کیا جانا چاہیے: بھارت

فوری ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے، ایک بیان میں بھارت کی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ ’’بھارت اور پاکستان کے درمیان معاملات کے باہمی حل کے لیے دہشت گردی اور تشدد سے آزاد ماحول درکار ہے، جو حکومت کا مؤقف تبدیل نہیں ہوا‘‘

بھارت نے امریکہ کی جانب سے پاکستان و بھارت کے درمیان زیادہ سرگرم کردار ادا کرنے کی تجویز مسترد کردی ہے، جن حریفوں کے درمیان کشمیر کے معاملے پر طویل مدت سے تنازع جاری ہے، جس بنا پر اکثر بین الاقوامی سطح پر تشویش درپیش ہوتی ہے، جس سے دونوں ہمسایہ جوہری طاقت رکھنے والے ملکوں کے مابین تنازع کا خوف رہتا ہے۔

بھارت کی طرف سے یہ تیکھا جواب اس ہفتے کے اوائل میں اقوام متحدہ میں تعینات امریکی سفیر، نِکی ہیلی کے بیان پر سامنے آیا ہے، جنھوں نے کہا تھا کہ امریکہ جنوبی ایشیا کے اِن حریفوں کے مابین تناؤ میں کمی لانے میں کردار ادا کرنے کی کوشش کرے گا۔


دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، ہیلی نے زور دے کر کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ ’’چاہتی ہے کہ یہ دیکھا جائے آیا تنازعے کو بڑھنے سے روکنے میں کیا کردار ادا کیا جاسکتا ہے‘‘۔

نیو یارک میں ہونے والی ایک اخباری کانفرنس میں اُنھوں نے کہا کہ ’بالکل، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں پہل کرنی ہوگی اس طرح سے کہ ہم بڑھی ہوئی تشویش دیکھتے ہیں، تنازع زور پکڑتا ہے، اور ہم چاہیں گے کہ دیکھا جائے کہ ہم اس میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں‘‘۔

فوری ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے، ایک بیان میں بھارت کی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ ’’بھارت اور پاکستان کے درمیان معاملات کے باہمی حل کے لیے دہشت گردی اور تشدد سے آزاد ماحول درکار ہے، جو حکومت کا مؤقف تبدیل نہیں ہوا‘‘۔

اپنی اہم نوعیت کی تشویش کی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے، بھارت نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ بین الاقوامی طور پر وضع کردہ طریقہٴ کار پر عمل درآمد کیا جائے، جب کہ ، بقول اُس کے، ’’پاکستان میں پیدا ہونے والی دہشت گردی، ہمارے خطے اور اس سے بھی آگے امن اور استحکام کے لیے سب سے بڑا واحد خطرہ بنا ہوا ہے‘‘۔

حالانکہ کشمیر تنازع کے حل میں امریکہ کی جانب سے کردار ادا کرنے کی تجویز گذشتہ چند کوششوں کا حصہ رہی ہے، بھارت نے پاکستان کے ساتھ اپنے تنازعے میں مصالحت کی تجویز کی تواتر کے ساتھ مخالفت کی ہے، جس مؤقف کو براک اوباما کی پچھلی امریکی انتظامیہ تسلیم کرتی تھی۔

دوسری جانب، پاکستان نے اکثر کہا ہے کہ کشمیر کے تنازع کے حل کے لیے وہ امریکہ اور اقوام متحدہ کی مدد کے حصول پر تیار ہے، اور پاکستان نے اِس معاملے کو مختلف بین الاقوامی فورم پر بارہا اٹھایا ہے۔

بھارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حالانکہ بھارت امریکہ کے ساتھ حکمتِ عملی کی نوعیت کی بڑھتی ہوئی ساجھے داری پر پُرامید ہے، ٹرمپ انتظامیہ کے دوران یہ تعلقات مزید گہرے ہوں گے، اُنھیں یہ پریشانی لاحق ہے آیا نئی امریکی حکومت روٹھے ہوئے جنوبی ایشیائی ہمسایوں کے کشیدہ تعلقات کے حل میں کس طرح کا انداز اپنائے گی۔

نئی دہلی کی ’آبزرور رسرچ فاؤنڈیشن‘ سے تعلق رکھنے والے منوج جوشی نے کہا ہے کہ ’’امریکہ سے متعلق بھارت کو یہ خوف لاحق ہے کہ امریکہ متحرک ہو کر کشمیر کے معاملے کو حل کرنے کی کوشش کر سکتا ہے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ بھارت اصل میں اس لیے خوفزدہ ہے چونکہ ’’ہم (امریکہ میں) ایک ایسی انتظامیہ ہے جو انتہائی ناتجربہ کار ہے، آپ کے ہاں ایک ناتجربہ کار صدر ہے، اس لیے کچھ بھی ہو سکتا ہے‘‘۔

حالانکہ بھارت باہمی مکالمے پر مصر ہے، دونوں ملکوں کے درمیان امن بات چیت کچھ عرصے سے معطل رہی ہے۔ وہ پیش رفت حاصل نہ ہونے کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہراتے ہیں۔

پچھلے ستمبر میں دونوں حریفوں کے درمیان تناؤ میں اضافہ آیا، جس سے قبل بھارتی زیر انتظام کشمیر میں ایک فوجی اڈے پر مسلح شدت پسندوں نے حملہ کیا۔ اس کے نتیجے میں بھارت نے کہا تھا کہ اُس نے پاکستانی علاقے کے اندر ’سرجیکل اسٹرائیکس‘ کی ہیں، تاکہ پاکستان میں موجود شدت پسندوں کو پکڑا جائے۔ پاکستان نے اِس دعوے کی تردید کی کہ ایسی کوئی کارروائی ہوئی ہے، لیکن کشمیر سرحد کئی ماہ سے کشیدہ ہے، جس سے تنازع بڑھنے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔