تصاویر: بھارت کی قبائلی خواتین انتخابات سے ناامید

57 سالہ کانتا دیوی شمالی ریاست ہماچل پردیش میں رہتی ہیں۔ پچھلے دنوں ان کا بیٹا بیمار ہوا تو انہوں نے حکام سے مالی امداد طلب کی۔ لیکن کسی نے ان کی مدد نہیں کی۔ وہ اور ان کے شوہر پچھلے 40 سال سے ووٹ ڈالتے آئے ہیں۔ لیکن وہ ناامیدی کے باوجود اس بار پھر ووٹنگ میں حصہ لیں گی۔

 

33 سالہ کنیا بگرا ہماچل پردیش میں رہتی ہیں۔ وہ اپنے گاؤں میں بہتری لانے کی غرض سے ووٹ دیتی آئی ہیں۔ انہیں امید ہے کہ اس بار جو حکومت بنے گی وہ خواتین کو مفت تعلیم دے گی۔

 

پچاس سالہ لسیا انگتی شمال مشرقی ریاست آسام کے شہر گوہاٹی میں رہتی ہیں۔ انہیں انتخابی عمل سے تبدیلی آنے کی امید نہیں کیوں کہ ان کے گاؤں میں آج بھی عوام کو بنیادی سہولتیں حاصل نہیں۔ نہ اسکول ہے نہ ٹیچر۔ یہاں تک کہ پولنگ اسٹیشن جانے کے لیے کوئی سڑک تک موجود نہیں۔ اسی لیے وہ ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کرچکی ہیں۔

 

حیدرآباد کی رہائشی رکلی کا کہنا ہے کہ انہوں نے زندگی میں صرف دو بار ووٹ ڈالا ہے لیکن کسی بھی حکومت نے ان کے گاؤں کے لیے کچھ نہیں کیا۔



 

بتیس سالہ مشنگی آسام کی رہائشی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں سمجھ ہی نہیں آتا کہ وہ ووٹ کیوں ڈالیں جب کہ انہوں نے آج تک اپنے علاقے کے کسی سیاسی رہنما کو دیکھا تک نہیں۔

 

65 سالہ قبائلی خاتون الوتی گوہاٹی کی رہنے والی ہیں. ان کا کہنا ہے کہ وہ ووٹ اس لیے دیں گی کہ یہ ان کا حق ہے۔ اس کے علاوہ ووٹ دینے کی ان کے خیال میں کوئی وجہ نہیں۔

جنمولی ملی کہتی ہیں کہ الیکشن کوئی بھی جیتے یا ہارے، اس سے انہیں کیا فرق پڑتا ہے؟ ملی ان پڑھ ہیں لیکن انہیں اپنی بیٹی کی تعلیم کی فکر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو خوب پڑھائیں گی۔

ناگا قبائلی خاتون جنہوں نے ناگا کا پرچم ہاتھ میں اٹھایا ہوا ہے۔ ناگالینڈ بھارت کی شمال مشرقی پہاڑی ریاست ہے جو میانمار سے متصل ہے۔ یہ خاتون ایک طویل عرصے سے اپنے علاقے کے حقوق کے لیے سرگرم ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ انتخابات زندگی کے ہر شعبے پر اثر انداز ہوتے ہیں، اور یہ انتخابات سب کے لیے بہت اہم ہیں۔
 

39 سالہ ارمیلا دیوی ہماچل پردیش سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ووٹ ڈال کر اپنی ذمے داری پوری کریں گی۔ وہ اپنے گاؤں میں چائلڈ کیئر سینٹر اور میڈیکل سینٹر کے قیام کی خواہش مند ہیں لیکن ساتھ ہی انہیں یہ امید بھی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی کام پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچے گا۔


 

91 سالہ بم نونگرم بیڑی پیتی ہیں۔ ان کا تعلق بھی شمال مشرقی ریاست میگھالیہ سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ انتخابی عمل کو سمجھتی نہیں لیکن ووٹ ضرور دیتی ہیں۔



 

29 سالہ سنگیتا نندھنی ممبئی میں رہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان سے جبری طور پر ان کی زمین خالی کرائی گئی جب کہ اس جگہ پر ان کا حق بنتا ہے۔ ان کے بقول وہاں ہمارے آباؤ اجداد پیدا ہوئے تھے اور وہیں مرے بھی۔ لیکن حکام ہمارا مطالبہ ماننے کے لیے تیار نہیں۔

 

ریاست میگھالیہ سے تعلق رکھنے والی ایک قبائلی خاتون لونا کا کہنا ہے کہ انہیں سیاست کے بارے میں کچھ پتا نہیں۔ وہ ووٹ اس لیے ڈالتی ہیں کہ ان کا شوہر ایسا کرنے کا کہتا ہے۔ انہیں الیکشن یا ووٹ کے بارے میں بھی کوئی علم نہیں۔
 

ممبئی کی رہائشی 48 سالہ سوواما سریش پاراشم گھروں میں مختلف کام کرتی ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ گھر گھر بیت الخلا ہونے چاہئیں۔ رفعِ حاجت کے لیے سرِ عام خواتین کا نکلنا بہت سے مسائل کی جڑ ہے۔ انہیں امید ہے کہ ایک نہ ایک دن وہ بیت الخلا کی سہولت حاصل کرپائیں گی۔

 

ہماچل پردیش کی رہائشی نرملا دیوی۔ نرملا ان خواتین میں شامل ہیں جو سمجھتی ہیں کہ ووٹ سے تبدیلی نہیں آتی۔ ان کا کہنا ہے کہ امیدوار وعدے کبھی پورے نہیں کرپاتے۔ وعدے صرف ان کی انتخابی مہم کا ایک حصہ ہوتے ہیں۔